پاکستان میں سیلابی تباہی کے ذمہ دار کون سے طاقتور لوگ ہیں؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں طوفانی بارشوں کے نتیجے میں آنیوالا سیلاب ہو یا پھر پنجاب کے دریاؤں میں طغیانی کے باعث ہونے والی تباہی و بربادی، اس کا بنیادی سبب ایک ہے اور وہ یے دریائوں کی گزر گاہوں پر قبضہ کرکے پانی کے فطری بہائو میں رکاوٹ بننا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جرم کوئی عام لوگ نہیں بلکہ پاکستان کے طاقتور اور با اثر فیصلہ ساز کر رہے ہیں جن کا احتساب کرنا ضروری ہے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تجزیے میں بلال غوری کہتے ہیں کہ سیلاب سے بچنا ہے تو دریاؤں پر بند باندھنے کے بجائے عقل و خرد کے پشتوں پر حماقتوں کے شگاف پُر کرنا ہوں گے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں مرض کی تشخیص اور موثر علاج کے بجائے محض وقتی نوعیت کا چھٹکارہ حاصل کرنیکی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً بارشیں ہوں یا دریائوں میں طغیانی آئے ،بزعم خود آبی ماہرین خود ترحمی کے انداز میں پند و نصائح کی پٹاری کھول کر سرزنش کرنے لگتے ہیں کہ ڈیم بنائے ہوتے تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔بالخصوص کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں تاخیر پر لعن طعن کی جاتی ہے ۔آبی ذخائر کی اہمیت اپنی جگہ مگر کوئی عصر حاضر کے ان سقراطوں اور بقراطوں سے پوچھے کہ راوی ،چناب اور ستلج کا پانی کالا باغ ڈیم میں کیسے لے جایا جاسکتا ہے؟

بلال غوری کہتے ہیں کہ سیلابی پانی کو کاشتکاری اور دیگر مقاصد کیلئے تو ذخیرہ کیا جاسکتا ہے لیکن اگر اسے ڈیم میں لیجانے کی غلطی کی جائے تو وہاں ریت، مٹی اور پتھر جمع ہو جانے سے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہی ختم ہو جائیگی اور ڈیم برباد ہو جائیں گے۔ پاکستان میں لگ بھگ 150 ڈیم ہیں جبکہ بھارت نے تقریباً 6000 آبی ذخائر بنا رکھے ہیں۔ تکلف برطرف ،اگر ڈیم کے ذریعے پانی روکا جاسکتا تو بھارت کو سپل ویز یعنی خارجی دروازے کھول کر یہ پانی آبی گزر گاہوں کی طرف کیوں بھیجنا پڑتا؟
بلال غوری کے مطابق تلخ حقیقت یہ ہے کہ پانی کو ایک مخصوص حد تک روک کر استعمال تو کیا جاسکتا ہے لیکن اسے ہمیشہ کیلئے قید نہیں کیا جا سکتا۔ یہ آزاد پنچھی ہے، بیراج بنا کر ،نہریں نکال کر،بند باندھ کر اور ڈیم تعمیر کرکے اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے مگر اس کی زمینوں پر قبضہ کرکے اسے موت کے گھاٹ اُتارنے کی کوشش کریں گے تو یہ آپ کیلئے عرصہ حیات تنگ کر دے گا۔

سینیئر صحافی لکھتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں طوفانی بارشوں کے نتیجے میں آنیوالا سیلاب ہو یا پھر پنجاب کے دریائوں میں طغیانی کے باعث ہونیوالی تباہی و بربادی، اس کا سبب ایک ہی ہے۔ دریائوں کی گزر گاہوں پر قبضہ کرکے پانی کے فطری بہائو میں رکاوٹ بننا۔ ہمارے ہاں قبضہ مافیا بہت طاقت ور ہے ،قانون اسکے گھر کی باندی ہے۔ سیاستدان ہوں، بیوروکریسی ہو، عدلیہ یا پھر میڈیا سب انکی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں۔ دریا کنارے ہوٹل کھولنے یا پھر ہائوسنگ سوسائٹی بنانے کیلئے متعلقہ محکموں سے اجازت حاصل کرنا ہرگز دشوار نہیں۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ نالوں کو تنگ کر کے انکا راستہ تبدیل کرکے یا مکمل طور پر بند کرکے کثیرالمنزلہ کمرشل پلازے تعمیر کر لئے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے کاغذی کارروائی مکمل کرنا مشکل نہیں۔ پٹواری اور تحصیلدار زمین کی ملکیتی دستاویزات تیار کرکے دے دیتے ہیں۔ یوں زمینوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے چند ہی برس میں ملک کے امیر ترین افراد میں شمار ہونے لگتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ دریا خشک ہوگیا ہے، اب تو یہ سیوریج کا نالہ بن چکا ہے ،پانی میں اب دم خم نہیں رہا، یہ ہمارا کیا بگاڑ لے گا۔ چنانچہ اس سوچ کے تحت دریائوں کی زمینوں کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹ مار شروع ہوجاتی ہے۔ دریا اس جبر و ستم پر کچھ نہیں کہتا،خاموش رہتا ہے کہ پانی کی یہی سرشت ہے۔ آپ اسکے راستے میں رکاوٹ کھڑی کریں، یہ تصادم سے گریز کی راہ اختیار کرتے ہوئے اپنا راستہ بدل کر جانیکی کوشش کریگا۔

گنڈا پور کی غداری کے باوجود عمران اسے ہٹا کیوں نہیں رہے؟

 

بلال غوری کہتے ہیں کہ جب سب راہیں مسدود ہوجائیں گی تو یہ اپنی طاقت مجتمع کرکے سطح آب بلند ہونے کا انتظار کرے گا۔ آپ فصیلیں اونچی کرتے رہیں گے ،یہ اپنی لہریں سمیٹتا چلا جائے گا اور پھر ایک وقت آئے گا جب یہ پانی سیلاب کا روپ دھار کر سب کچھ خس و خاشاک کی مانند بہا لے جائے گا۔ اس برس پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔

دریائوں کی منتقم مزاجی سے متعلق کئی کہاوتیں مشہور ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ اپنا راستہ کبھی نہیں بھولتا۔ کتنے ہی عشرے کیوں نہ بیت جائیں ،یہ اپنا حق واپس لینے ضرور آتا ہے۔ جب دریا بپھر جاتے ہیں، طغیانی کے ذریعے آبادیوں پر قہر ڈھاتے ہیں تو آبی گزر گاہوں پر تعمیرات کرنے والے چلاتے ہیں، اپنے ملکیتی کاغذات دکھاتے ہیں، بتاتے ہیں کہ انکے پاس تمام متعلقہ اداروں کے اجازت نامے موجود ہیں مگر دریائوں کا اپنا قانون اور ضابطہ ہے ،وہ ان جعلی دستاویزات کو نہیں مانتے۔

مولانا رومی نے کہا تھا، دریا کو روکنے کی کوشش نہ کرو،اس کے ساتھ بہنا شروع کرو گے تو ساحل ملے گا۔ اسی طرح ایک چینی کہاوت ہے ،پانی نرم ہے مگر وقت آنے پر یہ چٹان کو بھی کاٹ دیتا ہے۔ پانی کو ہلکا نہ لیں، دریائوں کو کمزور نہ سمجھیں ۔انہیں اپنا دشمن نہیں بلکہ دوست بنائیں۔ یہ دریا زندگی کی علامت ہیں ،انہیں فنا کے گھاٹ اُتار دینے کے بعد دنیا میں زندگی کا تصور باقی نہیں رہے گا۔اگر آپ اس مسئلے کو جڑ سے ختم نہیں کریں گے، ان اسباب کا تدارک نہیں کریں گے جو تباہی و بربادی لاتے ہیں تو سیلاب آتے رہیں گے۔دریائوں کے غیظ و غضب سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے، آپ ان کے راستے میں نہ آئیں ،آپ ان کے ہاں دراندازی کی کوشش نہ کریں، وہ بھی بن بلائے آپ کی طرف نہیں آئیں گے۔

Back to top button