سہیل وڑائچ کو شیر کی کھال پہنا کر کون شکار کرنا چاہتا ہے ؟

 

 

 

معروف اینکر پرسن سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ انہیں زبردستی شیر کی کھال میں لپیٹ کر شکار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ کون ہے جو اس زیرو کو زبردستی کا ہیرو بنانا چاہتا ہے، انکا کہنا ہے کہ اس سازشی کا پتا لگانا چاہئے جو میرے گناہوں کو بخشوا کر میرے ماتھے پر محراب سجانا چاہتا ہے ۔

 

سہیل وڑائچ روزنامہ جنگ میں اپنی تازہ تحریر میں یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ کو کبھی ایسی صورتحال کا سامنا ہوا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آپ سے لڑا جائے، کوئی غلطی نہ ہو تب بھی آپ کو سزا دی جائے، آپ نے گناہ بھی نہ کیا ہو لیکن آپ کو گناہ گار بنا دیا جائے۔ جب سزا جرم سے بڑھ جائے تو خاموشی بھی جرم سمجھی جاتی ہے لہذا بولنا تو پڑے گا۔

 

سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ مجھے ایک ناپسندیدہ شخص قرار دیا جا چکا ہے۔ لندن میں پاکستان اوورسیز فائونڈیشن کا کنونشن تھا، وزیراعظم شہباز شریف مہمان خصوصی تھے، مجھے بھی دعوت نامہ بھیجا گیا مگر پھر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے پیغام بھیجا کہ براہ کرم تشریف نہ لائیں، آپ کے اس کنونشن میں آنے پر پابندی ہے۔ یہ عاجز اس پابندی پر بھر پور احتجاج کرتا ہے اور اس ناروا زیادتی پر متعلقہ افراد سے معافی کا حق رکھتا ہے۔ آج کی دنیا میں آزادیِ اظہار رائے پر نوبل پرائز یافتہ برٹرینڈ رسل اور جولین اسانج کو ناپسندیدہ اشخاص قرار دیا گیا۔ کہاں ان جیسے بڑے نام اور کہاں اس عاجز خوشامدی کا نام۔ کیوں زبردستی شیر کی کھال میں لپیٹ کر مجھے شکار کرنا چاہتے ہیں۔

 

سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ میں نے ایک کالم لکھا تھا جس پر پہلے تحریک انصاف نے مجھ ہر لعن طعن کی اور پھر آئی ایس پی آر نے اسکی وضاحت کی۔ میں نے بھی جواب الجواب تحریر کیا اور معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہو گیا۔ لیکن شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے مجھے باغی اور راندہ درگاہ بنا دیا ہے۔ میں ان میں سے نہیں جو اداروں سے کسی جنگ یا کشمکش کے خواہاں ہوں، میں وہ بھی نہیں کہ جو اپنی مادر دھرتی کے مفادات کیخلاف مہم چلاؤں، میں وہ بھی نہیں جو پہلے خلائی پرواز سے چینلز میں نوکری حاصل کرتے تھے، اور پھر خلانوردوں سے جھوٹی خبریں لیکر اہل سیاست اور صحافت کو بدنام کرتے تھے، اس عاجز نے صحافت کی ایک ایک سیڑھی برسوں کی ریاضت سے طے کی ہے۔ ہمیشہ توازن اور اعتدال کو مدنظر رکھتے ہوئے اختلاف رائے کیا ہے۔ لیکن کبھی احترام کے دائرے کو عبور نہیں کیا۔

 

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ انہوں نے سیاست دانوں پر پھبتی کسی ہے مگر کسی کا جھوٹا سکینڈل نہیں بنایا اور نہ کبھی اسے ڈسکس کیا۔ اس عاجز کو اِدھر اُدھر سے بہت بھڑکایا گیا۔ ایک شخص نے تو مشورہ دیا کہ وطن واپس نہ جانا ورنہ ایئر پورٹ سے ہی گرفتار ہوجاؤ گے۔ میں ڈرپوک ڈرتے ڈرتے پاکستان پہنچا تو کسی نے نہ ہاتھ لگایا اور نہ کوئی کچھ پوچھ گچھ ہوئی۔ کچھ نے کہا اب تمہاری کوئی معافی نہیں مگر عاجز کو اپنی دھرتی کی مٹی پر یقین اور فخر ہے کہ وہ اپنے باسی کو کبھی ناپسندیدہ شخص قرار نہیں دے گی۔ اس عاجز نے ہمیشہ بڑے لوگوں نہیں، بلکہ عام آدمی سے اپنی سوگند نبھائی ہے۔ کبھی اطلاعات اور سچ میں ملاوٹ نہیں کی، آراء کا اختلاف تو باعث رحمت ہوتا ہے اگر اختلاف رائےکرنے پر بھی مجھے ناپسندیدہ شخص بنانا ہے تو یہ ڈرپوک اس سزا کو بھی اپنی آخرت کا توشہ سمجھ کر قبول کرے گا۔

 

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ مجھے کامل یقین ہے وزیراعظم شہباز شریف نے اس عاجز کے بارے میں کوئی ایسی ہدایت نہیں دی ہوگی، میں انکو جانتا ہوں اسلئے ان سےایسی امید نہیں مگر مجھے روکنے کیلئے وزیر اعظم کانام استعمال کیا گیااور کہا گیا کہ وہ اِس عاجز اور منہ کالے کو دیکھ کر ناراض ہوں گے۔ یہ شاہی فرمان ایک سکیورٹی ایجنسی کے اہلکار نے جاری کیا، دعوت نامہ جاری کرنیوالے سب انکاری ہوگئے کہ وہ اس ناہنجار کو جانتے بھی ہیں۔ اگر ضمیر اور اصول کی کوئی پسلی ہوتی تو یہ بتا تو دیتے کہ کنونشن میں شرکت کا خصوصی دعوت نامہ بھجوا کر یوں انکار کرنا کتنا نامناسب ہوگا۔

 

سہیل وڑائچ نے مشورہ دیا کہ نہ چھیڑوں ملنگاں نوں۔ کونے میں بیٹھے دہی کھانے والوں پر گھات نہ لگائیں ورنہ ایسا کرنے والوں کی بھی خاک  اڑے گی۔ طاقتوروں اور کمزور کی لڑائی میں جیتے گا تو طاقتور لیکن کمزور کی آہ فتح کے نشے کو ہوا کر دیتی ہے، کمزور کے پاس کچھ بھی نہ ہو تو وہ مخالف کی آنکھوں میں ریت تو پھینک ہی سکتا ہے۔ قلم کار نہتا اور مسکین ہو تو تب بھی لفظوں کا ذخیرہ اس کے پاس ہر وقت موجود ہوتا ہے۔ کیوں بے مقصد لڑائی چھیڑنا چاہتے ہیں؟ کون ہے جو اس کھیل سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے؟

 

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ آج کل کا سوشل میڈیا اور یوٹیوبر رائی کا پہاڑ بنانے کے ماہر ہیں۔ بات چھوٹی سی اور رائی جتنی ہوتی ہے مگر اسے بار بار کھینچ کر مصنوعی پہاڑ جتنا بنا دیا جاتا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ حکمران طبقات اصل کی رائی دیکھنے کی بجائے جھوٹ کے پہاڑ پر یقین کر لیتے ہیں اور پھر اس جھوٹ کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں جس کا اصل میں وجود بھی نہیں ہوتا۔ اگر رائی کو رائی سمجھا، لکھا اور پڑھا جائے تو میڈیا کو ہضم کرنا اور برداشت کرنا آسان ہو جائے گا۔ سوشل میڈیا کی مہم ایک طوفان کی طرح اٹھتی ہے اور پھر دھول کی طرح بیٹھ جاتی ہے۔ ایک ہفتے بعد سب کو پہاڑ یاد ہی نہیں رہتا مگر جو اس مہم کا ہدف اور نشانہ بنتا ہے اس کی تکلیف سے نکلنے والی کراہیں دیر تک جاری رہتی ہیں۔ میرے معاملے کو بھی رائی ہی رہنے دیا جائے جو کوئی بھی اسے پہاڑ بنا رہا ہے اسے ’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘ والے محاورے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

Back to top button