عمران کی امیدوں کے برعکس پاک امریکہ تعلقات بہتر کیوں ہونے لگے؟

اڈیالہ جیل میں بند عمران خان کی امیدوں کے برعکس شہباز شریف حکومت اور امریکی صدر ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کے مابین غیر متوقع طور پر تعلقات بہتر ہونا شروع ہو گئے ہیں جسے تحریک انصاف کے حلقوں میں ایک بری خبر کے طور پر لیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے اہنی کانگرس سے خطاب کے دوران داعش کے مطلوب دہشت گرد شریف اللہ کی گرفتاری پر باقاعدہ پاکستان کا شکریہ ادا کرنے کو دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی بہتری کا پیش خیمہ قرار دیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ ماضی میں ٹرمپ اور حکومت پاکستان کے درمیان معاملات کبھی سیدھے نہیں رہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں 9 ایسی ٹویٹس پوسٹ کی تھیں، جن میں پاکستان کا ذکر تھا اور ان میں سے ایک ایسی بھی تھی جو پوسٹ کرنے کے بعد ڈیلیٹ کردی گئی تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے پچاس بار مختلف موقعوں پر پاکستان کا ذکر کیا۔ صدر ٹرمپ کا پاکستان کے بارے میں سب سے پہلا بیان اکتوبر سنہ 1999 میں جاری ہوا تھا جس میں انہوں نے جوہری ہتھیاروں کے خطرے کے حوالے سے پاکستان کا نام لیا تھا۔ اس کے بعد اسی برس نومبر میں انھوں نے شمالی کوریا، چین اور انڈیا کے ساتھ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کا ذکر کیا۔
اسی طرح سنہ 31 دسمبر 2017 کو بھی انھوں نے ایک ایسی ٹویٹ کی تھی جس نے دونوں ممالک کے تعلقات کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ 31 دسمبر کی رات کو ٹویٹ پوسٹ کرتے ہوئے انھوں نے پاکستان پر امریکہ سے دھوکہ کرنے اور اربوں ڈالرز امداد لینے کی بات کی تھی۔
انھوں نے لکھا تھا کہ ’امریکہ نے 15 برسوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالرز کی امداد احمقانہ انداز میں دی، اور ہمارے لیڈروں کے بے وقوف سمجھتے ہوئے انھوں نے ہمیں جھوٹ اور دھوکہ کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ انھوں نے ان دہشت گردوں کو پناہ دی جنہیں ہم افغانستان میں پکڑنا چاہتے۔‘ دو جنوری سنہ 2018 کو انھوں نے ایک اور ٹویٹ پوسٹ کی ’یہ صرف پاکستان ہی نہیں ہے جسے ہم بغیر فائدے کے اربوں ڈالرز دیتے ہیں۔‘
تاہم اب دوسری مدت کے لیے امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے بعد ٹرمپ کی جانب سے کانگرس میں خطاب کے دوران پاکستان کا شکریہ ادا کرنے کو نہایت اہمیت کا حامل قرار دیا جا جا رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان وہ پہلا ملک ہے جس کا صدر ٹرمپ نے اپنے دوسرے دور صدارت میں امریکی کانگرس سے خطاب کے دوران شکریہ ادا کیا ہے۔ امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ اس حالیہ پیش رفت سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان انسداد دہشت گردی کے لیے کام جاری ہے تاہم وہ سمجھتی ہیں کہ اسے بہت بڑی بات نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں ابھی اتنی گرمجوشی نہیں۔ وہ کہتی ہیں اب امریکہ کی نظر میں پاکستان کی وہ اہمیت نہیں رہی جو پہلے تھی۔
ملحیہ لودھی سمجھتی ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان دوبارہ سے تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے جو ابھی تک نہیں ہو سکا۔ انھوں نے کہا کہ ’تعلقات پچھلے تین چار سال سے چوراہے پر ہیں اور ان کو دوبارہ سے استوار کرنے کی ضرورت ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد تعلقات میں کمی آئی اب ضرورت ہے کہ تعلقات کو وسیع بنیاد پر استوار کیا جائے۔
اسی ضمن میں عالمی امور کے تجزیہ کار اور ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’صدر ٹرمپ کی جانب سے کابل ائیرپورٹ حملے میں ملوث شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے دہشتگرد کو تلاش کرنے اور پکڑنے میں تعاون کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا گیا۔ یاد ریے کہ اس گرفتسری کے کیے سی آئی اے ڈائریکٹر اور ایف بی آئی کے سربراہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ساتھ رابطے میں تھے۔ انکا کہنا تھا لگتا ہے کہ پاکستان امریکہ کا انسداد دہشت گردی کے معاملے پر انٹیلیجنس اور سکیورٹی تعاون کا دوبارہ آغاز ہو رہا ہے۔
انھوں نے اس کی اہمیت سے متعلق مزید لکھا کہ ’پاکستان افغانستان میں دہشت گردی کے بارے میں امریکی خدشات سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور امریکہ کے ساتھ ایک نئی سکیورٹی پارٹنرشپ قائم کرنا چاہتا ہے۔ ایسے میں امریکی انتظامیہ کا اعتماد جیتنے میں مشکل ہو گی اور امریکہ کو بدلے میں کچھ دینا ہو گا۔ انکا کہنا تھا کہ کابل ایئرپورٹ پر حملے کے دوران 13 امریکی فوجیوں کو مارنے کے منصوبہ ساز کو پکڑنے میں پاکستان کی مدد کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ تاہم تحریک انصاف کے حلقوں میں اسے ایک بری خبر کے طور پر لیا جا رہا ہے کیونکہ عمران خان کے حامی ٹرمپ سے یہ توقع کر رہے تھے کہ وہ صدارت کا حلف اٹھانے کے فورا بعد حکومت پاکستان سے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کر دیں گے۔