لاپتہ افراد کےلیے دھرنے: بلوچستان کی 3 اہم سڑکیں کئی روز سے بند

بلوچستان میں لاپتا افراد کے لواحقین کی جانب سے جاری احتجاج کے باعث صوبے کی تین اہم شاہراہیں کئی روز سے بند ہیں جس سے نظام زندگی معطل ہو کر رہ گیا ہے اور عوام شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ضلع سوراب میں زیرو پوائنٹ کے مقام پر مظاہرین کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی این 25 شاہراہ  اور گوادر کو کوئٹہ سے ملانے والی ایم ایٹ شاہراہ کو بند کر کے گزشتہ پانچ دنوں سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ 8 جنوری کو خضدار میں ایک کالعدم تنظیم کے حملے کے بعد لاپتہ ہونے والے 9 افراد کو بازیاب کرایا جائے۔

اسی طرح قلات میں بھی جبری گمشدگیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف ان کے لواحقین کی جانب سے 48 گھنٹے سے کوئٹہ کراچی شاہراہ بند ہے اور وہاں بھی دھرنا دیا گیا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی زیر قیادت لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے ایک اور احتجاج  مستونگ کے علاقے کرد گاپ میں پچھلے پانچ دنوں سے جاری ہے جس سے کوئٹہ کو تفتان اور ایران سے ملانےو الی این 40 بین الاقوامی شاہراہ  ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند ہے۔ سوراب، قلات اور مستونگ کی ضلعی انتظامیہ نے مظاہرین سے مذاکرات کیے لیکن کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔

شاہراہوں کی بندش کی وجہ سے سینکڑوں چھوٹی بڑی مسافر گاڑیاں اور مال بردار ٹرک پھنسے ہوئے ہیں۔ کردگاپ میں پھنسے ہوئے ایک ٹرک ڈرائیور عبداللہ نے بتایا کہ وہ ایران سے انگور لے کر آرہے تھے، لیکن اب وہ تین دن سے سڑک پر کھڑے ہیں جس کی وجہ سے انگور خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق بلوچستان کی مرکزی شاہراہوں کی بندش کے باعث پھنسے ہوئے مسافروں اور ٹرک ڈرائیوروں کو افطاری اور سحری کے لیے خوراک کا بندوبست کرنے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔

دوسری جانب بلوچ  یکجہتی کمیٹی نے الزام لگایا ہے کہ صوبے میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف سال 2025 کے پہلے دو مہینوں میں ہی 100 سے زائد مزید لوگ بلوچستان سے لاپتہ ہو گئے ہیں۔ اس تنظیم کی سربراہ ماہ رنگ بلوچ نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ قلات سے پنجاب یونیورسٹی کے فارغ التحصیل  طالب علم اشفاق احمد اور درجنوں دیگر افراد کو لاپتہ کر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’اگر حکومت کو سڑکوں کی بندش سے مسئلہ ہے تو جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ بند کرکے لاپتہ افراد کو منظر عام پر لائے۔‘ بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ یکم جنوری سے اب تک بلوچستان میں 76 بار قومی شاہراہوں کو بند کیا گیا جس سے نہ صرف معیشت کو بھاری نقصان پہنچا بلکہ بلوچستان کے عوام کو بھی تکلیف اٹھانی پڑی۔

ماہ رنگ کے مطابق ’پرامن احتجاج سب کا حق ہے، لہازا خواتین اور بچوں کو ڈھال بنا کر قومی شاہراہوں کو بند کرنےکی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں ایک بار پھر سے دفعہ 144 نافذ کر کے شاہراہوں پر احتجاج پر پابندی لگائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام اضلاع کی انتظامیہ کو چھ گھنٹے میں تمام شاہراہوں کو بحال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ وگرنہ ضلعی افسران کے خلاف کارروائی ہو گی۔ دوسری جانب سخت کارروائی اور اعلانات کے باوجود حکومت ابھی تک قومی شاہراہیں کھلوانے میں ناکام  نظر آرہی  ہے۔

Back to top button