بشری اور علیمہ، گنڈاپور کو ہٹانے کے لیے اکٹھی کیوں ہوئیں ؟

 

عمران خان کی گرفتاری کے بعد پچھلے دو برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ ان کی اہلیہ بشری بی بی اور ان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے کسی معاملے پر مشترکہ موقف اختیار کیا جسکے نتیجے میں وزیراعلی خیبر پختون خواہ علی امین گنڈا پور کی چھٹی ہو گئی۔ خان کی تیسری بیوی اور سب سے بڑی بہن کی جانب سے کان بھرے جانے کے بعد گنڈاپور کو اڈیالہ جیل سے استعفی دینے کی ہدایات دی گئیں، یوں خیبر پختونخوا کی سیاسی تاریخ کا ایک باب ختم ہو گیا۔ فروری 2024 کے الیکشن کے بعد وزیراعلٰی بننے والے گنڈا پور نے 8 اکتوبر 2025 کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

سیاسی مبصرین کے مطابق برطرفی کی اس کہانی کا دلچسپ ترین پہلو یہ ہے کہ ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف چلنے والی بشریٰ بی بی اور علیمہ خان وزیراعلی خیبر پختون خواہ کو ہٹانے کے لیے ایک ہی صفحے پر تھیں چنانچہ گنڈاپور کا بچنا محال ہو گیا تھا۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق گنڈاپور کے حالات نومبر 2024 کے اسلام آباد دھرنے کے بعد خراب ہونا شروع ہوئے۔یاد رہے کہ اسلام آباد کے دھرنے سے جوتیاں اٹھا کر پشاور فرار ہونے کے بعد بشریٰ نے موقف اختیار کیا تھا کہ گنڈا پور نے ان کے ساتھ زبردستی کی حالانکہ وہ ورکرز کے ساتھ کھڑا رہنا چاہتی تھیں۔

بتایا جاتا ہے کہ علی امین بشری بی بی کے پشاور میں قیام اور فیصلہ سازی میں ان کی بیجا مداخلت کی وجہ سے کافی تنگ تھے، لہذا جب وہ گرفتار ہوئیں تو انہوں نے سکون کا سانس لیا۔ لیکن بشری کی گرفتاری کے بعد علیمہ خان نے پارٹی کی کمانڈ سنبھال لی گنڈاپور پر حکم چلانا شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں کے اختلافات منظر عام پر آنا شروع ہو گئے۔ تاہم حال ہی میں گنڈاپور کی جانب سے علیمہ خان کو ملٹری انٹیلیجنس کی ایجنٹ قرار دینا ان کے تابوت کا آخری کیل ثابت ہوا۔ بالاخر عمران نے گنڈاپور کی جگہ سہیل آفریدی کو خیبر پختون خواہ کا نیا وزیراعلی بنانے کا فیصلہ کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس فیصلے میں بنیادی کردار بشری بی بی نے ادا کیا۔

لیکن اسکے باوجود تحریک انصاف میں یہ بحث جاری ہے کہ کیا یہ فیصلہ پارٹی کی اندرونی لڑائی کا نتیجہ ہے یا اسٹیبلشمینٹ کی مداخلت کا؟
اس معاملے کو ماضی میں جا کر دیکھیں تو 26 نومبر 2024 کو جب پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں عمران خان کی رہائی کے لیے ایک بڑا مارچ کیا تو علی امین گنڈاپور اس کی قیادت کر رہے تھے۔ پشاور سے لے کر اسلام آباد تک ہزاروں کارکنوں نے اس میں شرکت کی لیکن جیسے ہی مارچ اسلام آباد پہنچا، معاملات بگڑ گئے۔ لانگ مارچ کی قیادت کرنے والی بشریٰ بی بی گنڈاپور سے شدید نالاں نظر آئیں۔ ویڈیو فوٹیجز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بشریٰ بی بی وزیر اعلی خیبر پختون خواہ کے احتجاجی قافلے سے الگ ہو کر اپنا قافلہ چلا رہی تھیں، اور ان کے چہرے پر غصہ صاف جھلک رہا تھا۔ ایک ویڈیو میں وہ یہ کہتی سنی گئیں کہ ’یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ علی امین نے وعدہ کیا تھا کہ احتجاج کامیاب ہوگا، لیکن یہاں تو افراتفری ہے۔ بشر بی بی کو یہ شک بھی تھا کہ گنڈاپور جان بوجھ کر کانگ مارچ فلاپ کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈی چوک پر اکٹھے ہونے والے مظاہرین کو فرار ہونا پڑا جس کے نتیجے میں احتجاج ’فلاپ‘ ہو گیا۔ اس احتجاج کی ناکامی کے بعد تحریک انصاف کی سٹریٹ پاور ختم ہو گئی اور بعد میں عمران خان کی کسی بھی کال پر لوگ اکٹھے نہیں ہو پائے۔ اسی دوران بشری بی بی کو توشہ خانہ کرپشن کیس میں 10 سال قید کی سزا ہو گئی اور انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد علی امین گنڈا پور کا علیمہ سے میچ پڑ گیا کیونکہ دونوں ایک دوسرے کو ماننے پر تیار نہیں تھے۔ دونوں اڈیالہ جاتے تو عمران خان کو ایک دوسرے کی شکایتیں لگاتے۔ اس معاملے کا ڈراپ سین تب ہوا جب حال ہی میں ایک جیل ملاقات میں گنڈاپور نے عمران خان کو بتایا کہ علیمہ خان ملٹری انٹیلیجنس کے کہنے پر پارٹی میں اختلافات پیدا کر رہی ہیں تاکہ پارٹی تقسیم ہو جائے اور وہ چیئرمین کا عہدہ سنبھال لیں۔ عمران خان کی نظر میں گنڈاپور نے ریڈ لائن کراس کر لی تھی لہذا اب ان کا وزارت اعلی پر برقرار رہنا ممکن نہیں تھا لہذا ان سے استعفی لے لیا گیا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعلی کی اس طرح سے تبدیلی عمران خان کی سگنیچر سیاسی چال ہے۔ اسمبلیوں سے استعفوں سے لے کر وزیراعلی تبدیل کرنے تک، ان کی سخت گیر شخصیت نمایاں رہی ہے۔ وہ شدت سے وزیراعلی تبدیل کرنا چاہتے تاکہ نئی قیادت پارٹی ورکرز کو سڑکوں پر لا کر ان کی رہائی کے لیے اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھا سکے۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق پارٹی کی سیٹ پاور ختم ہو چکی ہے اور اب وہ وقت گیا جب لوگ عمران خان کی کال پر سڑکوں پر نکل آتے تھے۔

Back to top button