جھانسی کی رانی بننے کی خواہش مند بشری بی بی فرار کیوں ہوئیں؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے اسلام آباد کے احتجاج سے بشری بی بی کے فرار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دنیا نسیم حجازی کا افسانوی ناول
نہیں، میدان جنگ میں دائمی فتح ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کی طرح جان قربان کرنے اور اپنا خون بہانے سے ملتی ہے، جذباتی نعرے بازی اور کھوکھلی تقریروں کے بعد جان بچا کر بھاگ جانے والوں کا مقدر ہمیشہ ابدی شکست ہی ہوتی ہے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں بھارت اور بنگلہ دیش کے انگریزی تعلیم یافتہ افراد خود کو لارڈ میکالے کے بچے کہتے ہیں۔ لارڈ میکالے نے برصغیر میں انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے اور مغربی سائنس و فلسفہ پڑھانے پر زور دیا تھا اسی لئے ہندوستان میں اس کے مداح خود کو میکالے کے بچے کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم اردو میڈیم پاکستانی کم از کم چار نسلوں سے علامہ اقبال کے چند اشعار اور نسیم حجازی کے ناولوں کے کرداروں پر اپنی سوچ اور فکر کی بنیاد رکھے ہوئے ہیں۔ بشریٰ بی بی اور انکے ہم عصروں پر اقبال کی سنجیدہ فکری نثر کا سایہ تک نہیں پڑا البتہ اقبال کی جذباتی شاعری ضرور ان نسلوں کے خمیر میں شامل ہوچکی ہے، چنانچہ اس نسل کو اگر معروف ناول نگار نسیم حجازی کے بچے کہا جائے تو یہ چنداں غلط نہ ہوگا۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جذبات ہر مبنی علامہ اقبال کے مصرعے ساری اردو میڈیم کلاس کو زبانی یاد ہیں اور انکی ذہنی پرورش اور فکری پرواز میں ان اشعار کا بڑاگہرا دخل ہے۔ مشہور ادیب اشفاق احمد نے روزنامہ جنگ کیلئے مجھے دیئے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ اقبال کی شاعری اور سوچ میں تضاد ہے، دن کا اقبال اور ہے اور رات کا اقبال اور، انکے اس انٹرویو پر بہت شور مچا لیکن اشفاق احمد نے نہ اسکی تردید کی اور نہ ہی وضاحتی بیان جاری کیا۔ اشفاق احمد کا غالباً یہ خیال تھا کہ اقبال کی شاعری میں رومانویت ہسندی، عشق اور جنون کی فراوانی ہے مگر ان کی نثر اور فلسفے میں یہ جذبات کہیں بھی نظر نہیں آتے، وہاں صرف عقل کی حکمرانی نظر آتی ہے اور اقبال کا یہ پہلو اردو میڈیم ہم وطنوں سے بالکل چھپا ہوا ہے۔
سہیل وڑائچ کے بقول ہماری اردو میڈیم کی چار یا پانچ نسلیں آج بھی نسیم حجازی کی تخلیق کردہ افسانوی، مصنوعی اور رومانوی دنیا میں رہتی ہیں۔ راتوں کو یہ نسل محمد بن قاسم اور یوسف بن تاشفین بن کر گھوڑے پر سوار مغرب و مشرق میں فتح کے جھنڈے لہرانے کے خواب دیکھتی ہے۔ بشریٰ بی بی ہوں یا انکے ساتھی، یہ سب جوش و جذبے سے تو بھرے رہتے ہیں مگر عقل اور تدبر کو چھوتے تک نہیں، انکے فیصلے ذاتی ہوں یا سیاسی، انفرادی ہوں یا اجتماعی سبھی میں یہ رنگ نظر آتا ہے۔ ایسے میں بشریٰ بی بی کے سیاسی کردار، انکی فکر اور سوچ کا تجربہ ضروری ہو گیا ہے۔ ملک کے سب سے پاپولر لیڈر عنران خان پر ان کا کافی اثر ہے، انکی اہلیہ ہونے کے علاوہ وہ خان کے فکر و فلسفہ پر بھی حاوی ہیں، اور ان کا نظریہ اسلام ہی اب خان کا نظریہ اسلام ہے۔
سہیل وڑائچ کے بقول 1971ء میں پیدا ہونے والی بشریٰ اب 53 برس کی ہیں۔ وہ وٹو برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کی پہلی شادی مانیکا وٹو کے سول سروس افسر خاور مانیکا سے ہوئی تھی جس سے انکے پانچ بچے ہیں۔ بشری روحانی طور پر بابا فرید آف پاکپتن سے بہت متاثر ہیں، ان کا لگائو تصوف، روحانی شخصیات اور سلاسل سے ہے مگر وہ خلوت پسند تصوف کی قائل نہیں لگتیں، وہ خانقاہ یا درگاہ میں بیٹھ کر اشاعت دین کو شاید مکمل فریضہ نہیں سمجھتیں، وہ عمل کی دنیا کی قائل لگتی ہیں کیونکہ عالم اسلام میں ان کا پسندیدہ لیڈر طیب رجب اردوان ہے یا پھر وہ مہاتیر محمد کی مداح ہیں، یہ دونوں رہنما عمل پسند مسلمان رہنما تھے جو مغربی دنیا سے متصادم رہے۔
حال ہی میں اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے سے پہلے بشریٰ بی بی نے جو ویڈیو پیغام جاری کیا، اس میں انکے فکر و فلسفہ کے دو اہم عناصر سامنے آئے، ایک تو انہوں نے سعودی عرب میں رائج نظام کو غیر شرعی قرار دیا اور ساتھ ہی اس عزم اور یقین کا اظہار کیا کہ عمران خان ملک میں شرعی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں۔ دوسرا اہم عنصر یہ تھا کہ عمران خان مدینے میں ننگے پائوں گئے، گویا انکی رائے میں احترام کا اظہار بھی ضروری ہے اور یہ مدینہ میں ننگے پائوں چلنے سے ظاہر ہوا جس پر بقول بشریٰ بی بی سعودیہ والوں نے اظہار ناپسندیدگی کیا۔ گویا انہیں سعودی عرب کے نظریہ اسلام سے اختلاف ہے، وہ بریلوی روحانی سوچ کی حامل ہیں، ایسے میں انکے دوسرے شوہر عمران خان، جو کہ انکے مرید بھی ہیں، کی فکر اور سوچ کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
بقول سہیل وڑائچ ہر قوم کی طرح ہم پاکستانیوں کو بھی اپنا نظریہ، اپنی سوچ اور انداز فکر رکھنے کا حق حاصل ہے، مگر ہماری سوچ میں کافی تضادات ہیں اسی لئے مجھے یہ تضادستان لگتا ہے، بشریٰ بھی انہی تضادات ہی کا مرقع ہیں۔ اقبال کی سنجیدہ فکری جو نثر میں ہے وہ تو شاید انکی نظر سے کبھی گزری ہی نہیں ہو گی۔ اس کیے انہیں، وہی چند جذباتیت اور رومانویت پر مبنی چند اشعار جن کا ہم سب ورد کرتے ہیں، ازبر ہونگے۔ دوسری طرف نسیم حجازی نے اپنے ناولوں میں جو فضا اور نقشہ کھینچا ہے وہ بھی بشری بی بی کی یادداشت میں کہیں محفوظ ہو گا، اسی لئے وہ نسیم حجازی کے بہادر نسوانی کرداروں میمونہ، طاہرہ، ربیعہ اور امینہ کی طرح تاریخ میں اپنا نام درج کروانا چاہتی ہیں، روحانی دنیا میں تو انہیں دسترس حاصل ہی ہے لہازا مادی دنیا میں بھی انہوں نے پختون خوا سے اسلام آباد کی طرف مارچ کرکے اپنی ہمت کا لوہا منوانے کی کوشش کی، انہوں نے پردے سے نکل کر ہجوم کو ہاتھ ہلا ہلا کر جس طرح بھڑکایا اور ماحول بنایا وہ مناظر نسیم حجازی کے ناولوں کا ہوبہو نمونہ تھے۔
لیکن ہمارا تضاد دراصل یہ ہے کہ ہم افسانوی واقعات کو حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں، ہم واقعی عقل کو عیار اور عشق کو اعلیٰ و برتر گردانتے ہیں، ہم واقعی خود کو محمد بن قاسم اور حجازی کے ناولوں کی ربیعہ تصور کرلیتے ہیں، مگر یاد رکھیں کہ آج کی دنیا میں جذبات، جوش اور جنون پر عقل اور ٹیکنالوجی بھاری پڑ چکی، اب ربیعہ اکیلی نسیم حجازی کے ناول "شاہین” کی طرح پاکستان کی قسمت نہیں سنوار سکتی۔ بشریٰ بی بی بھی اکیلی ریاست سے لڑ کر اپنے شوہر کو دوبارہ فتح کے تخت پر نہیں بٹھا سکتیں۔ تاریخ بڑی ظالم صنف ہے۔ آپ ساری عمر بہادری، جراتمندی اور دلیری دکھائیں، لیکن آخری لمحے پر بزدلی دکھا جائیں تو آپ تاریخ میں پٹ جانے والے ابوعبداللہ بن جاتے ہیں، غرناطہ کے آخری حکمران نے جب رخصت ہوتے ہوئے آنسو چھلکائے تو اس کی ماں نے اسے تھپڑ رسید کر کے کہا تھا کہ بہادروں کی طرح لڑ نہیں سکے تو اب کمزوروں کی طرح رو کر مت دکھاو۔
پی ٹی آئی نے میدان جنگ سے فرار کی نئی تاریخ کیوں اور کیسے لکھی؟
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ بشریٰ بی بی بڑے طمطراق سے فاتحانہ انداز میں اسلام آباد میں داخل ہوئیں تو چاند بی بی، جھانسی کی رانی یا رضیہ سلطان کی طرح لگی تھیں، مگر ڈی چوک میں رینجرز کا آپریشن شروع ہونے پر وہ جس طرح سب سے پہلے عمران خان کے شیدائیوں کو بے یارو مددگار میدان میں چھوڑ کر گنڈا پور کیساتھ فرار ہوئیں اس سے سقوط بغداد، سقوط غرناطہ، سقوط ڈھاکہ اور سقوط دہلی یاد آگئے، ان سب واقعات میں بادشاہوں اور لیڈروں کی جانیں تو بچ گئیں مگر شکست کا داغ ندامت صدیوں بعد بھی مٹ نہیں سکا۔بغداد کا خلیفہ بھی لڑنے سے بھاگا مگر کیا فتح کے بعد زندہ بچ سکا ؟غرناطہ کے بادشاہ کو کیا کہیں پر جائے امان ملی؟ سقوط ڈھاکہ میں جنرل اے کے نیازی بچ تو گیا مگر کیا اسکے بعد وہ کبھی سر اٹھا کر چل سکا؟ سقوط دہلی کے مغل بادشاہ اقتدار سے بے دخلی کے بعد رنگون میں قید رہے، کیا وہ کبھی دوبارہ حکمرانی کر سکے؟ ان سب سوالوں سب کا جواب نفی میں ہے۔ وجہ یہنہے کہ یہ دنیا نسیم حجازی کا ناول نہیں، عملی فتح ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کی طرح جان قربان کرنے سے اور اپنا خون بہانے سے ملتی ہے، جان بچا کر بھاگنے والوں کا مقدر ہمیشہ ابدی شکست ہی ہوتی ہے۔