دوسرے خط میں عمران نےآرمی چیف کو نشانے پر کیوں رکھ لیا؟

عمران خان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو لکھے گئے پہلے خط کا منہ توڑ جواب آنے کے باوجود بانی پی ٹی آئی نے ایک اور کھلا خط عسکری قیادت کے نام جاری کر دیا ہے۔ عام انتخابات کو ایک سال مکمل ہونے کے تناظر میں سوشل میڈیا پر جاری کئے گئے دوسری خط میں بھی عمران خان نے نہ صرف عسکری قیادت پر اپنے پہلے والے الزامات کا اعادہ کیا ہے بلکہ  خط میں فوج اور عوام میں بڑھتی ہوئی دوریاں کم کرنے کی درخواست کرتے ہوئے فوج کے اپنی آئینی حدود میں واپس جانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق تحریکِ انصاف اور عمران خان کی شروع سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ براہِ راست فوجی قیادت سے بات کریں۔ لیکن دوسری جانب سے اس پر دلچسپی دکھائی نہیں دے رہی۔ عمران خان نے  پہلے خط کا دوٹوک جواب ملنے کے باوجود دوسرا خط لکھ کر عسکری قیادت نے ایک بار پھر رحم اور دوبارہ گود لینے کی اپیل کی ہے تاہم اس بار بھی عسکری قیادت نے اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ فوج اپنے آئینی فرائض سے بخوبی آگاہ ہے کسی کو اس حوالے سے فوجی قیادت کو درس دینے کی کوئی ضرورت نہیں،فوج تمام امور قانون اور آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے انجام دے رہی ہے۔ عمران خان ہمیں قانون کا درس دینے والے  سے پہلے اپنی قانون شکنیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے گریبان میں ضرور جھانکیں۔

خیال رہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے نام دوسرا خط بانی پی ٹی آئی عمران خان  کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جاری کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے مطابق اس اکاؤنٹ پر جاری کردہ پیغامات جیل میں قید سابق وزیر اعظم کی ہدایت پر ہی جاری کیے جاتے ہیں۔

اپنے دوسرے خط میں عمران خان نے لکھا ہے کہ ’میں نے ملک و قوم کی بہتری کی خاطر نیک نیتی سے آرمی چیف کے نام کھلا خط لکھا، تاکہ فوج اور عوام کے درمیان دن بدن بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کیا جا سکے مگر اس کا جواب انتہائی غیرسنجیدگی اور غیر ذمہ داری سے دیا گیا۔‘عمران خان نے اس کھلے خط میں لکھا ہے کہ ’میرا جینا مرنا صرف اور صرف پاکستان میں ہے۔ مجھے صرف اور صرف اپنی فوج کے تاثر اور عوام اور فوج کے درمیان بڑھتی خلیج کے ممکنہ مضمرات کی فکر ہے، جس کی وجہ سے میں نے یہ خط لکھا۔ میں نے جن 6 نکات کی نشاندہی کی ہے ان پر اگر عوامی رائے لی جائے تو 90 فیصد عوام ان نکات کی حمایت کرے گی۔‘عمران خان کی جانب سے دوسرے خط میں ایک بار پھر چھ نکات کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں ’الیکشن میں دھاندلی اور نتائج میں تبدیلی، چھبیسویں آئینی ترمیم، من پسند ججز کی بھرتیاں، پیکا کا اطلاق کرنا، سیاسی عدم استحکام سے ملک کی معیشت کی تباہی اور ریاستی اداروں کا اپنے فرائض چھوڑ کر سیاسی انجینئیرنگ اور سیاسی انتقام میں شامل کرنا‘ شامل ہیں۔

عمران خان نے خط میں مزید کہا ہے کہ ’دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ قوم فوج کے پیچھے کھڑی ہو۔‘انھوں نے آرمی چیف کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’فوج کو اپنی آئینی حدود میں واپس جانا ہوگا۔ سیاست سے خود کو علیحدہ کرتے ہوئے صرف اپنی متعین کردہ ذمہ داریاں پوری کرنا ہونگی ورنہ یہی بڑھتی خلیج قومی سلامتی کی اصطلاح میں فالٹ لائنز بن جائے گی۔‘

عمران خان نے اپنے دوسرے خط میں جیل میں اپنے ساتھ مبینہ ناروا سلوک سے متعلق بھی متعدد الزامات عائد کیے ہیں۔خط میں مزید کہا گیا کہ ’9 مئی اور 26 نومبر کو ہمارے نہتے جمہوریت پسند کارکنان پر ظلم و تشدد کی انتہا کر دی گئی۔ پر امن شہریوں پر سیدھی گولیاں چلائی گئیں۔ سیاسی انتقام کی آڑ میں تین سال میں لاکھوں شہریوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے، ہمارے 20 ہزار سے زائد ورکرز اور سپورٹرز کو گرفتار کیا گیا۔‘’میری اہلیہ، ڈاکٹر یاسمین راشد ، میری دونوں بہنوں سمیت سمیت سینکڑوں خواتین کو بے جا پابند سلاسل رکھا گیا۔ ہمارے دین کا حکم تو یہ ہے کہ جنگی حالات میں دشمن کی عورتوں اور بچوں سے بھی بدسلوکی نہ کی جائے۔ یہ سب ہماری روایات کے منافی ہے اور اس کی وجہ سے عوام میں فوج کے خلاف نفرت بہت بڑھ گئی ہے جس کا سدباب بروقت ہو جائے تو یہ فوج اور ملک دونوں کے حق میں بہتر ہے ورنہ اس سب سے ناقابل تلافی خسارہ اٹھانا پڑ سکتا ہے۔‘

یاد رہے کہ عمران خان کے دوسرے کھلے خط کا متن لگ بھگ پہلے خط جیسا ہی ہے۔ عمران خان کی جانب سے یہ خط عام انتخابات کو ایک سال مکمل ہونے پر جاری کیا گیا ہے۔

سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے نام دوسر اخط پاکستان کے عوامی اور سیاسی حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہےتجزیہ کاروں کے مطابق تحریکِ انصاف اور عمران خان کی شروع سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ براہِ راست فوجی قیادت سے بات کریں۔ لیکن دوسری جانب سے اس پر دلچسپی دکھائی نہیں دے رہی۔

پاکستان میں جمہوری اقدار پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے ‘پلڈاٹ’ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ عمران خان کی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور آرمی چیف سے براہِ راست گفتگو کرنے کی خواہش پرانی ہے۔عمران خان دلی طور پر کسی اور سے بات چیت کے لیے دل سے آمادہ نہیں ہیں۔ اسی لئے وہ بار بار خط لکھ کر آرمی چیف کے ترلے کر رہے ہیں تاہم دوسری جانب عمران خان کے خط میں ایک طرح سے آرمی چیف پر الزامات لگائے گئے ہیں کہ اُن کی پالیسیوں کی وجہ سے فوج اور عوام میں دُوریاں پیدا ہو رہی ہیں۔

سینئر تجزیہ کار اور کالم نویس مظہر عباس کہتے ہیں کہ عمران خان موجودہ حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی ‘پراکسی’ قرار دیتے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ فوج کے ساتھ براہ راست بات کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن عسکری قیادت ان سے بات کرنے پر آمادہ نہیں اُن کے بقول پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو بھی ادراک ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی سے بات نہیں کرنا چاہتی اور وہ اس صورتِ حال کو اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔اُن کے بقول عمران خان نےخط کے ذریعے ایک طرح سے فوج کو یہ پیغام دیا ہے کہ بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔مظہر عباس کہتے ہیں کہ عمران خان نو مئی کے بعد فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان بڑھنے والی کشیدگی بھی کم کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی اور عمران خان سے متعلق رویے پر نظرِ ثانی کرے۔

حکومت ایک سال میں پراجیکٹ عمران کو لپیٹنے میں کس حد تک کامیاب رہی؟

تاہم عمران خان کے دوسرے خط کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کی جانب سے خطوط واقعی کیا فوج سے معاملات بہتر کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہے؟کیا عمران خان خود بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں گے؟

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ عمران خان کے طرزِ سیاست سے تو نہیں لگتا کہ وہ اپنی پالیسیوں پر بھی نظرِ ثانی کریں گے۔ کیونکہ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ اُنہوں نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا ہو۔اُن کے بقول عمران خان کے لیے بہتر تو یہ ہے کہ سول حکومت کے ساتھ ہی بات چیت کریں اور انہی کے ذریعے آرمی چیف تک اپنا پیغام پہنچائیں۔

یاد رہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو دو خطوط لکھنے سے قبل عمران خان چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی اور آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کو ‘ پاکستان میں آئینی نظام کی تباہی’ کے عنوان سے بھی خطوط لکھ چکے ہیں۔

Back to top button