جج حضرات فیصلے لکھنے کی بجائے خطوط کیوں لکھنے لگے؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ آج کی اعلیٰ عدلیہ کے جج حضرات فیصلے لکھنے کی بجائے خطوط لکھنے پر زیادہ زور دے رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ سیاسی ہو چکے ہیں۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل سامنے آنیوالی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی عدلیہ 142 ممالک میں 130 ویں اور خطے کے چھے ممالک میں پانچویں نمبر پر تھی۔ اِس مقامِ بلند پر فائز ہونے کا واحد محرّک جج صاحبان کی اپنی کارکردگی تھی کیونکہ اُسوقت نہ چھبیسویں ترمیم آئی تھی، نہ’ اُمید سے‘ بیٹھے کسی جج کی ’’حق تلفی‘‘ ہوئی تھی، نہ کوئی آئینی بینچ تشکیل پایا تھا، نہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں تین جج صاحبان کا تبادلہ ہوا تھا، نہ کوئی نئی انتظامی کمیٹی بنی تھی اور نہ کسی کی سنیارٹی تہ وبالا ہوئی تھی۔ ہمیں قوی اُمید ہے کہ ’’خطوط نویسی‘‘ کے بعد، عدلیہ کئی درجے اُوپر چلی جائے گی۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ روایتی طورپر جج آئین وقانون پر مضبوط گرفت اور عمدہ فیصلہ نویسی کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ایسے چند نام درخشاں ستاروں کی طرح دمک رہے ہیں۔ اگر صرف شعری وادبی چاشنی کے حامل فیصلوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو جسٹس اے۔آر۔کارنیلئیس، جسٹس حمودالرحمن، جسٹس بدیع الزماں کیکائوس، جسٹس شفیع الرحمن، جسٹس محمد حلیم، جسٹس ایم۔آر۔کیانی اور جسٹس تصدق حسین جیلانی کے لکھے ہوئے فیصلے اُن صاحبانِ ذوق کو بھی آسودگی بخشتے ہیں جو آئین وقانون کی موشگافیوں کے بجائے، صرف تحریر کی لطافت کا لطف لیتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہوا کہ عدلیہ نے اپنی اصل ذمہ داری یعنی عدل کی کارفرمائی کو ’’ریٹائرنگ روم‘‘ میں پھینک دیا اور ان کے فیصلے ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہوکر بے توقیر ہوتے چلے گئے۔ اعلیٰ عدلیہ کا ہر جج، ایوانِ عدل میں قدم رکھنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر حلف اٹھاتا ہے کہ ’’۔۔میں اپنے ذاتی مفاد کو سرکاری کام یا اپنے عدالتی فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہونے دوں گا۔۔۔ اور یہ کہ میں ہر حال میں ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ بلا خوف ورعایت اور بلارغبت وعناد، قانون کے مطابق انصاف کروں گا۔‘‘ لیکن نہایت تلخ حقیقت یہ ہے کہ ’’خوف، رعایت، رغبت اور عناد‘‘ کے چھینٹے کم وبیش ہر عدالتی فیصلے پر نظرآتے ہیں۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ ابھی ختم ہونے والی دہائی میں عدلیہ کی کوکھ سے، دو دو تین تین سَروں والے ایسے ایسے عجیب الخلقت بچھڑوں نے جنم لیا کہ زمین وآسمان ششدر رہ گئے۔ ایک زمانے میں خطوط نویسی کا جو فریضہ مرزا غالب جیسے بڑے شاعر سرانجام دیتے تھے وہ اب ہمارے اعلیٰ عدلیہ کے ججز نے اپنے ذمے لے لیا۔ خط کو کُلّی طورپر شخصی، ذاتی اور انفرادی عمل تصور کیا جاتا ہے جو کسی فردِ واحد کے جذبہ واحساس کی ترجمانی کرتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی خط، ایک سے زیادہ افراد نے تخلیق کیا ہو۔ کئی ججز کی ترجمانی کرنے والی تحریر، معروف معنوں میں ہرگز ’’خط‘‘ نہیں کہلا سکتی۔ اُسے عرضی، درخواست، پٹیشن، فریاد یا کوئی بھی ایسا نام دیا جاسکتا ہے۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ ماضی قریب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط نویسی کی طرح ڈالی لیکن یہ اُن کی انفرادی سوچ کی حامل تحریریں تھیں ،اِس لئے خط ہی کے زمرے میں شمار ہوئیں لیکن گزشتہ برس، مارچ 2024 میں یکایک اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 معزز جج صاحبان کا مشترکہ خط اِس دھماکے کے ساتھ سامنے آیا کہ آج تک اُس کی گونج تھمنے میں نہیں آ رہی۔ ’’خط‘‘ کا مرکزی موضوع یہ شکایت تھی کہ ’’ایک طاقت وَر ایجنسی ہمیں چھیڑتی اور ڈراتی ہے۔‘‘ کوئی پوچھے کہ جب آپ نے اللہ کو حاضرناظر جان کر، کسی سے خوف زدہ نہ ہونے کی قسم کھا رکھی ہے تو یہ شکایت کیسی؟ لیکن ’خط‘ کا یہ مطالبہ اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز تھا کہ ’’ایک ایجنسی پر لگائے گئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کی جائیں۔‘‘

جسٹس صدیقی نے یہ آواز، اپنا سب کچھ دائو پر لگاکر، وکلاء کے ایک بڑے اجتماع میں، ستمبر 2018 میں اٹھائی تھی جب کوئی ڈیڑھ ماہ بعد اُسے چیف جسٹس بننا تھا۔11 اکتوبر 2018 کو صدر عارف علوی کی طرف سے ایجنسی گزیدہ شوکت صدیقی کی معزولی کا فرمان جاری ہوا۔تب کم ازکم چیف جسٹس انور خان کاسی، جسٹس اطہر من اللہ اور مکتوب نویسِ اعلیٰ جسٹس محسن اختر کیانی، اسلام آباد ہائی کورٹ کا حصّہ تھے۔ کسی نے سِسکِی تک نہ لی۔ نہ کوئی ردّعمل، نہ رسمی بیان، نہ احتجاج، نہ کوئی ریمارکس، نہ مذمت، نہ ایجنسی کے ضمن میں کوئی مطالبہ ، نہ کوئی خط۔ دیکھتے دیکھتے اِن کے سب سے سینئر رفیق کار کو ریاستی غیظ وغضب کے کولہو میں پیس کر، گنے کے پھوگ کی طرح کسی ’کچرا کُنڈی‘ میں پھینک دیا گیا ۔ کوئی اُسے پُرسا تک دینے نہ گیا۔ اُس نے بیٹی کی شادی پر سب کو دعوت دی۔ کوئی ایک بھی شریک نہ ہوا۔ خوف کا یہ عالم تھا کہ فون پر بھی مبارک نہ دی۔ چمن کا کاروبار پہلے سے کہیں زیادہ خوش خرامی سے چلتا رہا۔ ٹھیک ایک ماہ سترہ دِن بعد عزت مآب جسٹس اطہرمن اللہ نے بطور چیف جسٹس حلف اٹھا لیا۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ 2021 اور 2022 میں، پی۔ٹی۔آئی کے عہدِ انصاف پرور میں، باقی 5 مکتوب نگار جج، اسلام آباد ہائی کورٹ کا حصہ بنے۔ اِن سب کو جسٹس شوکت عزیز کی دُہائی اور ایجنسی کے بارے میں تحقیقات کا خیال اُس وقت آیا جب جسٹس صدیقی کو عمران خان اور فیض حمید کے عتاب کا شکار ہو کر فارغ ہوئے پانچ سال، پانچ ماہ ، پندرہ دِن گزر چکے تھے۔ 26 مارچ 2024 کو چھ جج صاحبان کے شہرۂِ آفاق خط کے بعد سے، ججز کے خطوط کا سلسلہ ساون بھادوں کی برکھا کی طرح جاری ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں زوروں کا مقابلہ چل رہا ہے۔ اَب ججز کا ایجنڈا یہ ہوتا ہے کہ اَگلا خط کس کے نام لکھنا ہے اور اسکا مضمون کیا ہو گا؟ بنیادی اُمور طے ہوجانے کے بعد خط لکھنے کی ذمہ داری انگریزی پر دستر س رکھنے والے انشا پرداز کے سپرد کر دی جاتی ہے۔

جج صاحبان کے حلف اور ضابطۂِ اخلاق کے عین مطابق، عدل کی کارفرمائی کا مقدس مشن جاری ہے۔ کچھ عرصہ بعد مرتب ہونے والی ’پی۔ایل۔ڈی‘ (PLD) عدالتی فیصلوں پر نہیں، بلکہ ججز کے خطوط پر مشتمل ہو گی اور کوئی ادب شناس وکیل اِن خطوط کو ’’گرد و غبارِ عدل‘‘ کے نام سے مرتب بھی کر سکتا ہے۔

Back to top button