نوازاورشہبازشریف نےاپنےچمچوں کی صلح کیوں کروائی؟

حال ہی میں ایک دوسرے کے خلاف طبل جنگ بجانے والے مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف کے قریبی ساتھی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور وزیراعظم شہباز شریف کی وفاقی کابینہ میں وزیر ریلوے حنیف عباسی کے مابین پارٹی قیادت نے بالاخر صلح کروا دی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس صلح میں نواز شریف اور شہباز شریف نے مرکزی کردار ادا کیا اور اپنے اپنے ساتھیوں کو غصہ تھوک کر پیچھے ہٹنے پر آمادہ کیا۔
خیال رہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے مریم نواز کی پنجاب حکومت کو مسلسل نشانے پر رکھنے کے بعد صورتحال اس وقت سنگین ہوئی جب قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے نام لیے بغیر خواجہ آصف پر زوردار تنقید کر ڈالی۔حنیف عباسی کی قومی اسمبلی میں خواجہ آصف پر تنقید کو پنجاب حکومت کا ردعمل اور وزیراعظم شہباز شریف کی گوشمالی سے جوڑا گیا اور حزب اختلاف کے بنچوں سے اسے حکمران مسلم لیگ نون میں بڑی دراڑ اور داخلی برادرانہ جنگ سے تعبیر کیا گیا۔ حنیف عباسی کے کاٹ دار جملوں کو نہ صرف وفاقی کابینہ کی اندرونی کشیدگی کا عکاس قرار دیا گیا بلکہ حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف نے بھی اسے مسلم لیگ ن کے اندر ’’بڑی دراڑ‘‘ کے طور پر پیش کیا۔ حنیف عباسی نے خواجہ آصف کے بیانات کو حکومتی نظم و نسق کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ حکومتی کارکردگی سے اس قدر نالاں ہیں تو حزب اختلاف کی نشستوں پر جا بیٹھیں۔
تاہم اس ساری صورتحال کا دلچسپ امر یہ ہے کہ خواجہ آصف نے کوئی جوابی "کاروائی” نہیں کی حالانکہ وہ "ادھار” پر یقین ہی نہیں رکھتے تاہم وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی کے سخت جملوں کے باوجود خواجہ آصف نے روایتی انداز میں جوابی وار کرنے سے گریز کیا۔ حالانکہ وہ قومی اسمبلی کے معمر اور تجربہ کار اراکین میں شمار ہوتے ہیں اور اپنے بے باک بیانات کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق یہ رویہ دراصل قیادت کے دباؤ اور موجودہ حالات میں پارٹی اتحاد کو مقدم رکھنے کی حکمتِ عملی تھی۔ تاہم دونوں مرکزی پارٹی رہنماؤں میں کشیدگی بڑھنے کے بعد نواز شریف اور شہباز شریف نے معاملے کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لیے براہِ راست مداخلت کی۔ ذرائع کے مطابق پارٹی کی سینئر قیادت نے دونوں رہنماؤں کو سمجھایا کہ ایسے حالات میں جب ملک کو سیاسی و معاشی یکجہتی کی ضرورت ہے، پارٹی کے اندرونی جھگڑے صرف دشمن کو فائدہ پہنچائیں گے۔ بالآخر خواجہ آصف اور حنیف عباسی نے ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات کو پس پشت ڈال کر ’’سیز فائر‘‘ پر آمادگی ظاہر کر دی۔جس کے بعد طے پایاکہ دونوں پارٹی رہنما اپنے اپنے محاذ پر یکسوئی سے خدمات انجام دیں گے اور ایسی بیان بازی سے گریز کرینگے جس سے پارٹی میں کسی قسم کے اختلاف کی جھلک نمایاں ہوتی ہو۔مبصرین کے مطابق یہ واقعہ ن لیگ کے اندر موجود دباؤ اور گروپ بندی کا عکاس ہے۔ ’’یہ حقیقت ہے کہ ن لیگ کے اندر پنجاب حکومت کے فیصلوں اور وفاقی سطح کی پالیسیوں پر بعض رہنماؤں کو تحفظات ہیں۔ خواجہ آصف اور حنیف عباسی جیسے رہنماؤں کی چپقلش وقتی ہے، مگر یہ اپوزیشن کے لیے ن لیگ میں اختلافات کو اچھالنے کا ایک سنہری موقع فراہم کرتی ہے۔لیکن قیادت کی بروقت مداخلت نے معاملہ مزید بگڑنے سے بچا لیا۔‘‘
دوسری طرف پی ٹی آئی نے اس "تصادم” سے بڑی امیدیں لگا لی تھیں تحریک انصاف نے اس واقعے کو ن لیگ کی اندرونی تقسیم کے طور پر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی، تاہم خواجہ آصف اور حنیف عباسی کی صلح کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی مایوسی میں علیمہ خان کی گنڈاپور سے "کھلی جنگ” نے مزید اضافہ کر دیا ہے،بانی تحریک کی "دردمندانہ” اپیل کے باوجود تحریک انصاف کا داخلی انتشار آکاس بیل کی طرح بڑھ رہاہے۔شدید انتشار اور قیادت کے بحران کی شکار پی ٹی آئی میں علیمہ خان اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے درمیان جاری لفظی جنگ نے پارٹی کے اندر ایک نئے محاذ کو کھول دیا ہے، جس نے تحریک انصاف کو نون لیگی اختلافات کو عوام کے سامنے آشکار کرنے کی بجائے اپنی ہی صفوں میں الجھا کر رکھ دیا ہے، ناقدین کے مطابق حقیقت میں تحریک انصاف میں جاری داخلی جنگ نئے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے جہاں بانی تحریک انصاف کی بہن علیمہ خان متبادل قیادت کے طور پر جھنڈے گاڑھ رہی ہیں جبکہ خیبرپختونخوا کے وزیرا علیٰ علی امین گنڈاپور کو ہدف ملامت بنایا جارہا ہے پہلے یہ جنگ صرف ٹوئٹر پر شعلے بھڑکارہی تھی تاہم اب اس کی جھلک کھلے بیانات میں بھی نظر آرہی ہے، اس حوالے سے عمران خان کی اپنی پارٹی قیادت سے داخلی تفرقے کو ترک کرنے کی دردمندانہ اپیل تاحال بے اثر ثابت ہورہی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ن لیگ کا تنازع وقتی نوعیت کا تھا اور قیادت نے بروقت مداخلت کر کے اسے سلجھا لیا، تاہم پی ٹی آئی کا بحران زیادہ پیچیدہ اور طویل المدت دکھائی دیتا ہے کیونکہ ن لیگ میں اختلافات پالیسیوں تک محدود ہیں، جب کہ تحریک انصاف میں معاملہ براہِ راست پارٹی پر قبضے اور قیادت کی جنگ کا ہے اور اس جنگ میں کوئی بھی پی ٹی آئی رہنما پیچھے ہٹنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتا۔ جس کی وجہ سے پارٹی کے ٹوٹ پھوٹ کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ن لیگ کے اندرونی اختلافات اگرچہ وقتی طور پر ختم ہو گئے ہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا یہ مفاہمت واقعی دیرپا ثابت ہوگی یا مستقبل میں ایک نئی دراڑ دوبارہ سامنے آ جائے گی؟ اور اگر ایسا ہوا تو اس کے اثرات نہ صرف ن لیگ کی انتخابی حکمت عملی پر پڑیں گے بلکہ حکومتی استحکام کو بھی ہلا کر رکھ سکتے ہیں۔
