فوج کے زیر عتاب رہنے والے رانا ثنااللہ فوجی عدالتوں کے حامی کیوں بنے؟

ماضی میں پاکستان کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے زیر عتاب رہنے اور اس کے عتاب کا نشانہ بننے والے سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے فوجی عدالتوں کی جانب سے تحریک انصاف کے کارکنان کو سنائی گئی سزاؤں کی حمایت کرتے ہوئے ان پر یوتھیوں کی تنقید کو سختی سے رد کر دیا یے۔

روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحہ پر اپنی ایک تحریر میں وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان ملٹری ایکٹ 1952ء کے تحت ان زیر سماعت مقدمات کہ فیصلے سنائے گئے جن میں ٹرائل تو مکمل ہو چکا تھا لیکن سزا و جزا کا فیصلہ سپریم کورٹ کے حکم امتناعی کی وجہ سے زیر التوا تھا۔ سپریم کورٹ میں دونوں فریقین کی رضا مندی سے حکم امتناعی خارج ہوا اور پارلیمنٹ سے منظور شدہ پاکستان ملٹری ایکٹ 1952 کے تحت ملٹری کورٹس نے قانون کے مطابق محفوظ فیصلے سنائے۔ یہ فیصلے قانون اور آئین کے عین مطابق ہیں لیکن بعض حلقے اندرون ملک و بیرون ملک خاص طور پر امریکہ اور بعض یورپی ممالک اعتراضات اٹھائے ہوئے ہیں اور تاثر ایسے نمایاں کیا جا رہا ہے کہ شاید ان ملزمان پر الزامات کی نوعیت ایسی تھی کہ ان کا ٹرائل کسی عام فوجداری عدالت میں ہونا چاہیے تھا، لیکن ان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کیا گیا ہے۔ یہ تاثر سراسر غلط ہے۔ ایسے ٹرائل تو 1952 سے ہوتے آ رہے ہیں۔

رانا ثنا اللہ کے مطابق فوجی عدالتوں کی طرف سے سزائوں کے اعلان کے بعد چند مغربی ممالک میں اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں، لیکن یہ اعتراضات کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ فوجی عدالتیں آئین کا حصہ ہیں اور ملک کی سب بڑی جماعتوں نے مل کر ان عدالتوں کے قیام کی منظوری دی تھی۔ بعض لوگ سویلینز کے فوجی ٹرائل پر بھی ناراض ہورہے ہیں حالانکہ فوجی عدالتوں میں بھیجے گئے مقدمات کا سویلینز یا باوردی ہونے سے تعلق نہیں جرم کی نوعیت سے تعلق ہے۔ فوجی سزائوں کی زد میں ریٹائرڈ بریگیڈئر بھی آئے ہیں اور سویلین بھی۔ 9 مئی کے سانحے میں ملوث مجرموں کو سانئی گئی سزائوں میں ہر فرد کو اس کے جرم کی نوعیت کے مطابق سزا دی گئی ہے۔

رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ میں پاکستان کی فوجی عدالتوں کی جانب سے دی گئی قید کی سزائوں پر اعتراضات کئے گئے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ نائین الیون کے افسوسناک واقعہ پر امریکہ کا ردعمل کیا تھا۔ گوانتا ناموبے جیل میں کون سے آئین اور قانون کا اطلاق ہوتا تھا۔ 9 مئی اور 26 نومبر پاکستان کے نائن الیون تھے جن میں ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی اسطرح کا کھلواڑ نہ کر سکے۔ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ چند ماہ پہلے جب برطانیہ میں فسادات پھوٹے تو ان میں ملوث لوگوں کو سمری ٹرائل کر کے سخت ترین سزائیں سنائی گئیں، لہذا جب پاکستان میں ایسے واقعات ہوں تو تب امریکہ اور برطانیہ جیسی پالیسی ہی اپنائی جانی چاہیے۔

سابق وزیر داخلہ کے مطابق کئی آوازیں یہ اعتراض بھی کر رہی ہیں کہ سویلینز کا ٹرائل سویلین عدالتوں میں اور فوجیوں کا فوجی عدالتوں میں ہونا چاہیے، مگر اس وقت مسئلہ یہ درپیش ہے کہ پاکستان کا کریمینل جسٹس سسٹم بہت ہی کمزور ہے۔ پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ جن سویلینز کو سزائیں سنائی گئی ہیں وہ فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث تھے لہذا ان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہی بنتا تھا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ عام عدالتوں سے کسی کو سزا ملنا بہت مشکل ہے، حد تو یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو شہید کے قتل کے ملزم بھی رہائی پا گئے حالانکہ ان کے خلاف سائنسی بنیادوں اور عالمی سطح پر تفتیش ہوئی تھی۔ لہازا جب تک زیریں عدالتوں کا نظام پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہوتا اس وقت تک طاقتور ملزموں کو سزا ملنا ناممکن ہے۔ ایسے میں ساری سیاسی جماعتوں نے مل کر سویلینز کے ملٹری ٹرائل کی خود اجازت دی تھی، رانا ثنا کے مطابق غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات ملکی سالمیت کی ضرورت ہوتے ہیں اور یہ قدم تو خالصتاً جمہوری طریقے سے آئین اور قانون میں ترمیم کرکے اٹھایا گیا تھا۔ اب تحریک انصاف یا مغربی دنیا اس پر اعتراض کیسے کرسکتی ہے؟ خود تحریک انصاف کی حکومت کے دوران بھی 46 سویلینز بشمول ادریس خٹک کے سویلینز کے ملٹری ٹرائل ہوئے اور عمران حکومت ان کا دفاع کرتی رہی۔ آج بھی تحریک انصاف کے انہی لوگوں کو سزائیں ملی ہیں جو 9 مئی کے سانحے میں عملی طور پر ملوث تھے اور ان کے جرم کا ویڈیو ثبوت موجود تھا۔

رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ سویلینز کے فوجی ٹرائل کے حالیہ قانون کے بننے سے پہلے، ایوب خان کے دور میں فوجی عدالتوں کی سزائوں کے خلاف اپیل کسی سویلین کورٹ میں نہیں کی جاسکتی تھی، اب تو اس قانون میں بہتری لائی گئی ہے اور سزا یافتہ افراد ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں اپیل کرکے ریلیف پا سکتے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سیاسی کارکنوں کے خلاف فوجی سزائوں کی ریت نہ ڈالی جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے کارکن گھروں اور فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہوئے، وہاں آگ لگائی، یہ سیاسی طریقہ نہیں دہشت گردی تھی اس لئے اسکی سزائیں بھی دہشت گردی والی ہی ہونی چاہئیں۔الغرض فوجی عدالتی ںوقت کی ضرورت ہیں، اگر فوجی تنصیبات اور گھروں پر حملوں کے ملزمان سویلین عدالتوں سے رہائی پا جائیں تو پھر نہ ریاست رہے گی اور نہ امن و امان ۔ فوجی عدالتوں کی سزا سے سب کو عبرت حاصل ہو گی اور مستقبل میں ہجوم اور محاصرے کے ذریعے حکومتیں تبدیل کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

رانا ثنااللہ کہتے ہیں کہ بیرون ملک بنیادی انسانی حقوق کی آڑ میں اپنے صیہونی اور مسلم ایٹمی قوت پاکستان کے خلاف سازشی ایجنڈے کے زیر اثر بعض دانستہ اور کچھ نادانستہ صاحبان سے سوال ہے کہ سانحہ 9/11 کے بعد پوری دنیا پر چڑھائی کرتے ہوئے کیا انسانی بنیادی حقوق اور عالمی قوانین کو خاطر میں رکھا گیاتھا۔ کیا گوانتا نامو بے کی جیل آئینی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے قائم کی گئی تھی، بلاشبہ 9 مئی پاکستان کیلئے 9/11 ہی تھا۔ ایسے واقعات اگر امریکہ یا انگلینڈ میں وقوع پذیر ہوتے تو شاید ملزمان کیلئے گوانتا ناموبے جیل دوبارہ آباد ہو جاتی۔ 50 ہزار بے گناہ معصوم فلسطینی/ غزہ کے شہریوں کے بے رحمانہ قتل عام پر جن شخصیات کو کبھی مذمت کی ٹوئیٹ کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی، ان کا ضمیر اب پاکستانی آئین اور قانون کے مطابق دی گئی سزائوں پر اس قدر بے چین کیوں ہے۔ ہمیں بلاشبہ اپنے فوجداری عدالتی نظام کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہو گا جو انصاف کے تقاضوں پر پورا اترے تاکہ مخصوص قوانین اور عدالتی نظام کی جگہ ایک ہی نظام احاطہ کرے۔ لیکن اس انتظار میں فوجی تنصیبات پر حملے کرنے والے ملزمان کا احتساب لٹکانا ممکن نہیں تھا۔

Back to top button