مخصوص نشستوں کے فیصلے سے PPP اور JUI کی اہمیت کم کیوں ہوئی؟

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی جانب سے مخصوص نشستوں کا حتمی فیصلہ آ جانے سے نہ صرف تحریک انصاف کی سیاسی حیثیت کمزور ہوئی ہے بلکہ لیگی حکومت کی نظروں میں اپنی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے علاوہ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام کی اہمیت میں بھی کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے ماضی میں آئینی بینچ کی تشکیل کے لیے حکومت کا ساتھ دیا تھا ورنہ متعلقہ آئینی ترمیم پاس نہ ہو پاتی۔ مولانا فضل الرحمن کو منانے میں بنیادی کردار بلاول بھٹو نے ادا کیا تھا۔
اس حوالے سے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ ’ن لیگ کی قیادت میں حکمران اتحاد کو زیادہ نشستیں ملنے سے جہاں قومی اسمبلی میں جہاں دو تہائی اکثریت مل جائے گی وہیں ن لیگ سادہ اکثریت بھی حاصل کر لے گی۔ ایسے میں آئینی ترمیم کے لیے قومی اسمبلی میں اب نون لیگ کو جے یو آئی کی مدد کی تو بالکل بھی ضرورت نہیں ہو گی۔ احمد بلال کے مطابق ’سینیٹ میں جب خیبر پختونخوا سے باقی 12 نشستوں کے الیکشن بھی ہو جائیں گے تو پھر یہ بھی امکان ہے کہ حکمران اتحاد کو ایوان بالا میں بھی دو تہائی اکثریت مل جائے اور یوں آئینی ترمیم میں اور بھی آسانی ہو گی۔
عدالتی فیصلہ: حکومتی چیلنجز میں کمی، عمران کی مشکلات میں اضافہ
ان کے مطابق اب ن لیگ کا حکمران اتحاد پیپلز پارٹی کی مدد کے بغیر بھی مستحکم حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ احمد بلال محبوب کے مطابق ’پی پی پی پنجاب کے حوالے سے جو گلے شکوے کرتی رہتی اب شاید وہ سلسلہ بھی کم ہو جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت اور اپوزیشن میں فرق کم ہو جائے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعلی علی امین گنڈاپور کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے کا امکان بھی ہو سکتا ہے۔
دیگر سیاسی تجزیہ کار بھی متفق ہیں کہ اس فیصلے سے اب حکومت وقت کے لیے قانون سازی کا عمل آسان ہو گیا ہے اور آنے والے دنوں میں شاید 27ویں ترمیم بھی دیکھنے کو ملے۔ ان کے مطابق اس نئی ترمیم میں ممکنہ طور پر بلوچستان اور اندرون سندھ کے لیے قومی اسمبلی کی نشستوں کا شیئر بڑھا دیا جائے کیونکہ نئی مردم شماری میں بلوچستان اور اندرون سندھ کی آبادی دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ سامنے آئی ہے۔ اس وقت براہ راست قومی اسمبلی کی 266 نشستوں پر انتخابات ہوتے ہیں مگر جب بلوچستان صوبے کی نشستیں زیادہ ہوں گی تو پھر یہ تعداد بھی بدل جائے گی۔ اسی طرح خیبر پختونخوا میں سینیٹ کے انتخابات ہو جانے کے بعد حکومت اور اس کے اتحادیوں کو بھی مذید نشستیں مل جائیں گی۔ خیبر پختون خواہ کے لیے سینیٹ کے الیکشن مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ نہ آنے کی وجہ سے رکے ہوئے تھے۔
لیکن انتخابی امور کی ماہر اور فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی سابق چیئرپرسن مسرت قدیم کا کہنا ہے کہ ’اس فیصلے میں کافی ابہام پائے جاتے ہیں۔‘ ان کی رائے میں ’کچھ عرصے سے سمجھوتے کا انصاف اور سمجھوتے کی سیاست دیکھنے میں آ رہی ہے۔‘
مسرت قدیم کہتی ہیں کہ یہ عدالتی فیصلہ جمہوری عمل کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ اس کے اثرات بہت منفی ہوں گے اور عوام کے اداروں پر اعتماد میں کمی واقع ہو گی۔ ان کی رائے میں لوگ ہر روز ایک نئے فیصلے سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق ’ووٹرز اس فیصلے سے اسلیے بھی مایوس ہوں گے کیونکہ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ انھوں نے ووٹ کسی کو دیا اور سیٹ کسی کو ملی۔‘ اس فیصلے کے اثرات سے متعلق انھوں نے کہا کہ جب حکومت کے پاس طاقت آ جاتی ہے تو ایسی قانون سازی کی جاتی ہے جس کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ ان کے مطابق ’گذشتہ چند عرصے میں جس طرح قانون سازی ہوئی ہے اس پر پہلے ہی بہت سارے سوالات اٹھ رہے ہیں اور اب مزید سوالات اٹھیں گے۔