امریکہ نے اسامہ مخالف آپریشن بارے پاکستان کو کیوں نہیں بتایا تھا؟

14مئی 2025 کو نیٹ فلکس ہر ریلیز ہونے والی سیریز ’امریکن مین ہنٹ: اسامہ بن لادن‘ نے پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اس موقف کی تصدیق کر دی ہے کہ سی آئی اے نے اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں اسکی خفیہ قیام گاہ پر مارنے کا جو منصوبہ بنایا تھا وہ پاکستان سے مکمل طور پر خفیہ رکھا گیا تھا۔ یاد رہے کہ امریکی سی آئی اے نے 10 سال کی تلاش کے بعد 2 مئی 2011 کو اسامہ کو ایبٹ آبا دمیں انکی خفیہ رہائش گاہ پر مارنے کے بعد انکی لاش ساتھ لے جانے کے بعد سمندر میں غرق کر دی تھی۔
اسامہ بن لادن بارے تین پارٹس میں بنائی گئی نیٹ فلکس سیریز میں ان سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ القاعدہ کے مفرور سربراہ کو پکڑنے میں امریکہ کو ایک دہائی کا عرصہ کیوں لگا اور اس دوران انسداد دہشتگردی کے ماہرین اور سی آئی اے کے اہلکاروں کو کِن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سیریز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسامہ کو مارنے کے لیے تیار کردہ آپریشن کو اس قدر خفیہ رکھا کہ صدر اوباما نے اسے اپنی قریبی ترین حکومتی شخصیات کے ساتھ بھی شیئر نہیں کیا۔
اس کی پہلی قسط نائن الیون کے حملوں اور امریکی ردعمل کے بارے میں ہے۔ دوسری قسط میں اسامہ کو پکڑنے کی غرض سے کی گئی امریکی کارروائیوں میں پے در پے ناکامیوں اور مایوسی کا تذکرہ ہے جبکہ تیسری قسط اس آپریشن کے میں ہے جس میں بالآخر امریکہ اسامہ کو مارنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس سیریز میں امریکہ کی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی کے سابق عہدیداران اور تجزیہ کار کیمرے پر گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ افغانستان میں مداخلت کے فوراً بعد تورہ بورہ کی جنگ اسامہ کو پکڑنے کا ایک سنہری موقع تھی مگر اس میں انہیں ناکامی ہوئی اور اسامہ فرار ہو گیا۔ اس کے بعد بہت برسوں تک امریکی حکام کے ذہنوں میں یہی سوال رہا کہ اسامہ بن لادن کہاں ہے؟
اس سریز میں سی آئی اے حکام بتاتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کی تلاش 1996 سے جاری تھی مگر وہ کسی نہ کسی طرح امریکی کارروائیوں میں بچنے میں کامیاب رہتے تھے۔ امریکی صدر کے ڈیلی انٹیلیجنس بریفر اور سی آئی اے کے سابق اہلکار مائیکل بتاتے ہیں کہ افغانستان سے نکلنے کے بعد القاعدہ نے مزید حملوں کی منصوبہ بندی شروع کر دی تھی۔ امریکی حکام کو خدشہ تھا کہ عالمی سطح پر القاعدہ کے ٹھکانوں کے ذریعے نئے حملوں کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ دوسری قسط میں بتایا جاتا ہے کہ امریکی کارروائیوں میں کیسے پاکستان سے اسامہ بن لادن کے ساتھیوں کو پکڑا گیا اور انھیں تفتیش کے لیے گوانتانامو بے کے حراستی مرکز میں منتقل کیا گیا۔
سی آئی اے کے حکام بتاتے ہیں کہ فیصل اباد سے گرفتار ہونے والے ابو زبیدہ اور راولپنڈی سے گرفتار ہونے والے خالد شیخ محمد عرف مختار کو تفتیش کے دوران جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جیسا کہ 100 گھنٹے تک مسلسل جگا کر رکھنا مگر اس کے باوجود بن لادن کے قریبی ساتھیوں نے اُن کے ٹھکانے کا نہیں بتایا۔ دوسری طرف نائن الیون حملوں کی ہر برسی کے موقع پر امریکی حکام سے یہی سوال پوچھا جا رہا تھا کہ بن لادن کہاں ہیں اور انھیں اب تک کیوں نہیں پکڑا جا سکا؟
اس دوران اسامہ بن لادن اپنے زندہ ہونے کا ثبوت ایک ویڈیو پیغام میں ہر برس جاری کیا کرتے تھے چنانچہ امریکی حکام نے ان ویڈیوز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے والے کوریئرز کی تلاش شروع دی تاکہ اسامہ تک پہنچا جا سکے۔ کافی تلاش کے بعد پتہ چلا کہ اسامہ کے پیغام رساں کا نام ’ابو احمد‘ ہے۔ سیریز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 8 سال تک امریکی انٹیلی جنس ادارے ابو احمد کو ڈھونڈ رہے۔ سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر لیون پنیٹا سیریز میں بتاتے ہیں کہ سنہ 2010 میں اس کا فون پشاور میں ٹریک کیا گیا جسکے بعد ایبٹ اباد میں اس کی تلاش شروع کر دی گئی۔
ابو احمد کی تلاش امریکی حکام کو ایبٹ آباد میں اسکے کمپاؤنڈ تک لے گئی جسکے قریب ہی پاکستانی فوج کی کاکول اکیڈمی واقع تھی۔ اس بڑے گھر کی دیواریں 12 سے 18 فٹ اونچی تھیں اور اس گھر کو ابو احمد نے 2005 میں خریدا تھا۔ اس کی بالکونی بھی دیوار سے ڈھکی گئی تھی جس نے امریکی حکام کو شکوک و شبہات میں مبتلا کیا۔ یہ واضح ہو گیا تھا کہ وہاں کوئی ہائی ویلیو شخصیت موجود ہے، چنانچہ پاکستان میں موجود ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ساتھ مل کر اسامہ کے خاندان کے افراد کے خون کے نمونے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی جو ناکام رہی۔۔
سیریز میں امریکی انٹیلیجنس حکام نے سیٹلائٹ مناظر سے دیکھا کہ ایک شخص کمپاؤنڈ میں چہل قدمی کرتا ہے۔ اس شخص کے سائے سے اُس کے قد کا اندازہ لگایا گیا، جو اتنا ہی بنتا تھا جتنا بن لادن کا قد تھا مگر گھر کی دیواریں اونچی ہونے کی وجہ سے اُس شخص کے چہرے کی تصویر حاصل نہ کی جا سکی۔ بحر حال صدر براک اوباما کے حکم پر بن لادن کے کمپاؤنڈ پر حملے کے لیے امریکی نیوی سیل ٹیم کو ذمہ داری سونپی گئی جس نے کئی مہینوں تک اس کی تیاری کی۔ اس اپریشن کو ہر طرح سے خفیہ رکھا گیا اور پاکستان کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر حملہ کرنے والی خصوصی کمانڈوز کی 2 ٹیمیں جلال اباد سے رات 11 بجے دو ہیلی کاپٹرز پر پاکستان کی جانب روانہ ہوئیں۔ وائٹ ہاؤس میں انسداد دہشتگردی کے سابق سربراہ جان برینن نے سیریز میں بتایا کہ ’صدر اوباما نے واضح کہا کہ ہم پاکستانی کو اس آپریشن مطلع نہیں کریں گے کیونکہ ایسا کرنے سے منصوبہ لیک ہو سکتا ہے۔ خیال رہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے تصدیق کی تھی کہ امریکی فوج نے اس آپریشن کے لیے کوئی پاکستانی اڈہ استعمال نہیں کیا اور نہ ہی اسے اعتماد میں لیا تھا۔ چنانچہ امریکی ہیلی کاپٹرز پہاڑی علاقے سے اڑتے ہوئے پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوئے تھے تاکہ وہ ریڈار پر نظر نہ آ جائیں۔
ایبٹ آباد پہنچنے پر دو میں سے ایک ہیلی کاپٹر اسامہ کے کمپاؤنڈ کی دیوار سے ٹکرا کر حادثے کا شکار ہو گیا چنانچہ ایک اور ہیلی کاپٹر بلایا گیا۔ آپریشن کے دوران کمپاؤنڈ کی تیسری منزل پر اسامہ کو مارنے والے امریکی اہلکار نے سیریز میں بتایا کہ بن لادن نے ’سرنڈر نہیں کیا تھا۔ وہ نہ صرف میرے بلکہ پوری ٹیم کے لیے خطرہ تھے۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ اسے مارنا ہی ہو گا۔ اس کی لاش کو ایک ہیلی کاپٹر میں ڈال کر لے جایا گیا جبکہ حادثے کا شکار ہونے والے ہیلی کاپٹر کو دھماکہ خیز مواد کی مدد سے تباہ کر دیا گیا۔ سیریز میں بتایا گیا ہے کہ آپریشن ختم ہونے کے بعد جب امریکی ہیلی کاپٹرز نے واپسی کا سفر شروع کیا تو پاکستانی ایئر فورس کے جہاز اس کے پیچھے لگ گئے لیکن ان کے اوپر پہنچنے سے پہلے ہی امریکی افغانستان کی حدود میں داخل ہو گئے۔