پاکستان میں وکیل جج بن کر خود کو دیوتا کیوں سمجھنے لگتا ہے ؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری نے کہا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں میں جب کوئی وکیل اچانک جج تعینات ہو جاتا ہے تو پھر وہ انسان نہیں رہتا بلکہ دیوتا بن جاتا ہے۔ نو آبادیاتی عدالتی نظام میں منصف کے منصب پر براجمان شخص کو محض بے پناہ اختیارات ہی حاصل نہیں ہوتے بلکہ کیسز کی سماعت کے دوران اسے ہر لحظہ باور کروایا جاتا ہے کہ وہ اب ایک آسمانی مخلوق بن چکا ہے ہیں۔
اپنی تازہ تحریر میں بلال غوری کہتے ہیں کہ درخواست گزاروں کی نمائندگی کرنے والے وکلا ء صاحبان ججز کے سامنے التجائیہ انداز میں اپنا مقدمہ پیش کرتے ہیں۔ دلائل دیتے ہوئے مائی لارڈ! یعنی میرے آقا اور یور لارڈ شپ جیسے القابات سے مخاطب کرتے ہیں، وہ ایک ایک لفظ چبا کر، سوچ سمجھ کر بولتے ہیں کہ کہیں بے ادبی کا گمان ہونے پر قابل صد احترام جج ان پر توہین عدالت کی فرد جرم نہ عائد کر دے۔ جب عدالت لگتی ہے تو شلوار قمیض، شیروانی اور جناح کیپ میں ملبوس ایک خادم، عزت مآب جج صاحب کے تشریف رکھنے سے پہلے کرسی کو ہلاتے ہوئے گویا آگاہ کرتا ہے کہ باادب، ظلِ الٰہی مسند نشین ہوا چاہتے ہیں اور جب عدالت برخاست ہونے پر جج صاحب کے جانے کا وقت ہوتا ہے تو ان کے کھڑے ہونے سے پہلے یہی باوردی خدمت گار نشست کو پیچھے کھینچنے کیلئے موجود رہتا ہے تاکہ صاحب کو کسی قسم کی زحمت نہ ہو۔
بلال غوری یاد دلاتے ہیں کہ پاکستان کا دستور کہتا ہے کہ سب شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ کسی ایک شخص کو دوسرے پر کسی قسم کی کوئی برتری حاصل نہیں لیکن عدالت میں صرف مسند انصاف پر متمکن شخص کی تعظیم ہی لازم ہوتی ہے، سائل تو کیا ان کی نمائندگی کرنے والے وکلا ء کی بھی کوئی عزت نہیں ہوتی۔
PTIکی ملک بند کر دینے کی دھمکی صرف گیدڑ بھبکی کیوں ہے؟
بلال غوری کہتے ہیں کہ بھارت میں بھی یہی نظام چل رہا تھا لیکن 2014ء میں بھارتی سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں استدعا کی گئی کہ عدالتوں میں جج صاحبان کیلئے ’’مائی لارڈ‘‘ اور ’’یور لارڈ شپ‘‘ جیسے القابات جو عہد غلامی کی یاد دلاتے ہیں اور انسانی وقار کے منافی ہیں، ان کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اس درخواست کو منفی استدعا قرار دے دیا اور یہ کہتے ہوئے پٹیشن خارج کردی کہ ان اصطلاحات کا استعمال لازمی نہیں ہے۔ بہر حال 14جولائی 2019ء کو راجستھان ہائیکورٹ کے جج صاحبان نے فل کورٹ اجلاس کے بعد یہ سرکلر جاری کیا کہ دستور میں سب شہریوں کو تفویض کیے گئے یکساں حقوق کی روشنی میں متفقہ طور پر کیے گئے فیصلے کے بعد عدالتوں میں پیش ہونے والے وکلا ء صاحبان سے درخواست کی جاتی ہے کہ ججوں کو ’’مائی لارڈ‘‘ اور ’’یور لارڈ شپ‘‘ جیسے القابات سے نہ نوازا جائے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بعد ازاں بھارت میں اعلیٰ عدلیہ کے کئی جج صاحبان نے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی عدالتی اصلاحات کے پہلے مرحلے پر اگر ان نوآبادیاتی علامات اور نشانیوں سے جان چھڑوا لیں تو یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ سپریم کورٹ میں کام کر رہے تمام ملازمین کو جوڈیشل الائونس دیا جاتا ہے، اگر آپ سپریم کورٹ کے ڈرائیور کی تنخواہ جان لیں تو حیران رہ جائیں۔ پرکشش تنخواہوں اور مراعات کے باوجود جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں کس طرح تین تنخواہیں بطور اعزازیہ دینے کی روایت ڈالی گئی، یہ تفصیل قاضی فائز عیسیٰ کے پرائیویٹ سیکریٹری ڈاکٹر مشتاق احمد بیان کر چکے ہیں۔ یقیناً وہ باوردی خدمت گار جو جج صاحبان کی کرسیاں آگے اور پیچھے کرنے پر مامور ہیں، انہیں بھی جوڈیشل الائونس کے ساتھ ساتھ اعزازیہ دیا جاتا ہو گا۔ اگر ان دربانوں کی اسامیاں ہی ختم کر دی جائیں تو قوم کے کروڑوں روپے بچائے جا سکتے ہیں اور آخری بات، یہ مژدہ جانفزا سنایا گیا ہے کہ زیر التوا مقدمات ختم کرنے کیلئے جسٹس منصور علی شاہ کا منیجمنٹ پلان منظورکر لیا گیا ہے۔ تکلف برطرف، جسٹس ثاقب نثار کے الداعی ریفرینس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا، میں بھی میاں صاحب کی طرح ایک ڈیم بنانا چاہتا ہوں، زیر التوا مقدمات کے خلاف ڈیم۔