فیک نیوز کی بلا سے نمٹنے کے لیے سائبر کورٹس بنانا ضروری کیوں ہو گیا؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ اگر پاکستان کو فیک نیوز کی بلا سے بچانا ہے تو حکومت کو فوری طور پر ملک بھر میں قانون سازی کرتے ہوئے سائبر کورٹس بنا دینی چاہیئں۔ انکا کہنا ہے کہ ان سائبر کورٹس کو پابند کیا جائے کہ وہ چھ ماہ میں کیسز کے فیصلے کریں اور فیک نیوز بنانے اور پھیلانے والوں کو عبرت ناک سزائیں دیں۔ سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ فیک نیوز پھیلانے والوں نے پاکستان کو تماشا بنا دیا ہے۔

 یہاں کوئی ماجھا گاماں اٹھتا ہے اور پورے شہر میں آگ لگا دیتا ہے، ایسے میں ریاست سائیڈ پر کھڑی ہو کر تماشا دیکھتی رہ جاتی ہے‘ یہ تماشا اب بند ہونا چاہیے‘ ہمارا پورا ملک فالٹ لائنز پر کھڑا ہے یہاں کسی دن اگر کوئی فالٹ لائین پھٹ گئی تو ہم خون میں ڈوب جائیں گے، لہٰذا خدا کا واسطہ ہے ریاست فیک نیوز جیسے طوفانوں پر توجہ دے۔

اپنی تازہ تحریر میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ پاکستان میں فیک نیوز اور لوگوں کی پرائیویٹ وڈیوز سوشل میڈیا پر ڈال دینا ایک نارمل عمل ہے‘ آپ کو سوشل میڈیا پر لاکھوں فیک نیوز اور لوگوں کی پرائیویٹ وڈیوز مل جائیں گی‘ پاکستان میں ساڑھے اٹھارہ کروڑ موبائل فونز ہیں۔

 ان میں سے 15 کروڑ اسمارٹ فون ہیں اور اتنے ہی تجزیہ کار‘ مبصر اور اینکر ہیں‘ ان 15 کروڑ لوگوں کو راہ چلتے جو بھی شخص نظر آجاتا ہے یہ اس کی وڈیو بنانے لگتے ہیں اور وہ شخص چند گھنٹوں میں کوڑی کا نہیں رہتا‘ یہ کھیل اگر یہاں تک رہتا تو شاید برداشت ہو جاتا لیکن یہ اس سے بھی آگے نکل گیا ہے‘ پاکستانی معاشرہ وائرل ہونے کے خبط میں مبتلا ہو چکا ہے‘ سوشل میڈیا پر لاکھوں اکائونٹس ہیں اور ان میں سے ہر شخص وائرل‘ شیئرز‘ لائیکس اور سبسکرپشن کی دوڑ میں لگ چکا ہے اور اس دوڑ نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ ہم لوگ وائرل ہونے کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں‘ مثلاً ایک ایم این اے اور سیاستدان سینٹورس میں اپنی بہو اور بیٹی کے ساتھ کھڑا تھا‘ کسی نے اس کی وڈیو بنائی اور اس کی بہو اور بیٹی کو اس کی گرل فرینڈ قرار دے دیا اور یہ بری طرح وائرل ہو گئی‘ آپ اب ذرا اس خاندان کی اذیت کا اندازہ کیجیے‘ ہم آئے روز کسی پارٹی کی وڈیو دیکھتے ہیں جس میں چند لوگ شراب پی کر ڈانس کر رہے ہوتے ہیں۔

‘ یہ وڈیو اکثر اوقات ججوں سے منسوب کر دی جاتی ہے اور لوگ نہ صرف اس پر یقین کر لیتے ہیں بلکہ اسے فارورڈ بھی کرتے ہیں‘ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نے اسی طرح مختلف سیاستدانوں اور صحافیوں کے واہیات نام رکھے ہوئے ہیں‘ یہ کسی کو بوٹ پالشیا‘ کسی کو پٹواری‘ کسی کو لفافہ اور کسی کو کا لاڈلا کہنا شروع کر دیتے ہیں اور لوگ بعدازاں اس کو اس نام سے پکارنے لگتے ہیں

جاوید چودہری کہتے ہیں کہ آج کل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق ان کا خصوصی ہدف ہیں‘ چیف جسٹس کی ڈونٹس کی وڈیو خوف ناک حد تک وائرل ہوئی‘ یہ وڈیو بیکری کے ایک ایسے سیلزمین نے بنائی تھی جسے قاضی فائز عیسیٰ کا نام بھی نہیں آتا تھا‘یہ وائرل ہوئی اور پی ٹی آئی نے ڈونٹس شاپ کو زیارت گاہ بنا لیا اور آپ اب اس صورتحال کا کلائمیکس دیکھیے۔

جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ پنجاب کالج لاہور کے گلبرگ کیمپس سے متعلق ایک وڈیو 10 اکتوبر کو سامنے آئی‘ اس میں ایک طالبہ نے دعویٰ کیا ہمارے کمپلیکس کے بیس منٹ میں فرسٹ ائیر کی ایک لڑکی ریپ ہو گئی اور یہ ریپ کالج کے سیکیورٹی گارڈ نے کیا‘ یہ وڈیو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو گئی۔

‘ ملک میں اگلے دو دنوں میں ایک طرف شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس چل رہا تھا اور دوسری طرف یہ وڈیو وائرل ہو رہی تھی یہاں تک کہ یہ اسکینڈل ایس سی او کی میڈیا کوریج کو کھا گیا‘ طالب علموں نے احتجاج شروع کر دیا‘ احتجاج بڑھتے بڑھتے پورے پنجاب میں پھیل گیا اور طالب علموں نے درجنوں کیمپس تباہ کر دیے‘ شیشے توڑ دیے گئے‘ عمارتوں کو آگ لگا دی گئی اور گاڑیاں اور موٹر سائیکل جلا دیے گئے‘ ساڑھے چار سو لوگ زخمی ہو گئے۔

اس دوران گجرات میں پنجاب کالج کا ایک سیکیورٹی گارڈ بھی مارا گیا‘ 18 اکتوبر کو پنجاب کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے حکومت کو تمام تعلیمی ادارے بند کرنا پڑ گئے جب کہ دوسری طرف پولیس اور وزیر اعلیٰ مسلسل چیخ رہے ہیں اس قسم کا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں‘ جس لڑکی کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ دو اکتوبر کو گھر میں سیڑھیوں سے گر کر زخمی ہوئی اور اس وقت آئی سی یو میں ہے‘
اُدھر سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا جا رہا ہے ریپ 10 اکتوبر کو ہوا‘ لڑکی کے والدین اور رشتے دار بیان دے چکے ہیں ہماری بیٹی کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا‘ پولیس نے گارڈ کو سرگودھا سے گرفتار کر لیا‘ اس نے سی سی ٹی وی فوٹیج سے ثابت کیا میں اس دن وقوعہ پر موجود نہیں تھا لیکن مظاہرین حقائق تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ ان کا دعویٰ ہے وزیراعلیٰ اور پولیس واقعے پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں‘ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے حکومت واقعے پر پردہ کیوں ڈالے گی۔

ریپ ہوا ہوتا تو پولیس کے لیے آسان تھا یہ ملزم کو گرفتار کرتی‘ عدالت میں پیش کرتی اور یہ معاملہ چند گھنٹوں میں نبٹ جاتا‘ اسے اپنے گلے میں پھندا ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا ریپ کا الزام کسی بڑے آدمی یا کالج کے پرنسپل پر ہے؟ جی نہیں‘ اس میں صرف گارڈ کا نام لیا جا رہا ہے‘ پولیس اور حکومت کوگارڈ میں کیا دل چسپی ہو گی؟ دوسرا ابھی تک کوئی متاثرہ لڑکی سامنے نہیں آئی‘ وڈیو بنانے والی لڑکیاں اور لڑکے اپنی غلطی مان چکے ہیں۔

‘ یہ بتا رہے ہیں ہم نے سنی سنائی بات پر بلا تحقیق وڈیو بنا دی تھی اور ہم اس پر معذرت خواہ ہیں‘ یہ بھی پتا چلا اس ایشو کو 66 سوشل میڈیا پیجز سے وائرل کیا گیا‘ چند بڑے صحافیوں اور یوٹیوبرز نے اسے ہوا دی اور یوں یہ ایشو بن گیا اور اس نے پنجاب بھر میں آگ لگا دی۔

جاوید چوہدری کے بقول یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ موبائل فون کی شکل میں ایک بم ہمارے ہاتھوں میں ہے اور اس کا ٹریگر سوشل میڈیا کے ہاتھ میں ہے۔ امریکا‘ برطانیہ اور اسرائیل میں بیٹھے کسی شخص نے لیپ ٹاپ کا بٹن دبانا ہے اور ہمارے ملک میں آگ لگ جائے گی‘ اس ریپ ایشو میں بھی یہی ہو رہا ہے‘ ریپ سے متعلقہ وڈیوز صرف نوجوان طالب علموں کو دکھائی جا رہی ہیں اور خاص عمر اور خاص نفسیات کے نوجوان اس پر احتجاج کر رہے ہیں اور ہم تیزی سے بنگلہ دیش جیسی صورتحال کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ ایسے میں ہمارے پاس اب دو آپشن ہیں‘ ہم معاشرے کو اسی طرح اس کے حال پر چھوڑ دیں‘ ملک میں انارکی پھیل جائے اور خانہ جنگی پورے ملک کو نگل جائے یا پھر ہم سخت قوانین بنائیں اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں‘ میری تجویز ہے حکومت کو فوری طور پر دو قوانین بنانے چاہئیں‘ ایک کسی بھی شخص کو کسی دوسرے شخص کی بلااجازت تصویر یا وڈیو بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اگر کوئی شخص یہ حرکت کرے تو اس پر بھاری جرمانہ بھی ہونا چاہیے اور کم از کم دس سال قید بھی‘ دوسرا فیک نیوز اور پروپیگنڈا کے خلاف قوانین کو سخت کر دیا جائے۔

Back to top button