1973کےآئین میں ہونے والی 26ترامیم،کب کیا بدلاگیا؟
ت آئین پاکستان میں اب تک 26 بار ترامیم کی جا چکی ہیں، ان میں سے 7 ترامیم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوئیں، غیر جماعتی اسمبلی سے منتخب ہونے والے وزیراعظم محمد خاں جونیجو کے دور میں 3 آئینی ترامیم ہوئیں، نواز شریف کے ادوار میں 8 آئینی ترامیم ہوئیں۔
پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں 3 آئینی ترامیم ہوئیں، مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور پاکستان تحریک انصاف کے وزیر اعظم عمران خان کے دور میں 2، 2 آئینی ترامیم ہوئیں جبکہ ظفراللہ جمالی کے دَور میں ایک آئینی ترمیم کی گئی تھی، آئین پاکستان کی آٹھویں اور سترہویں ترمیم سب سے زیادہ متنازع قرار دی جاتی ہے، کیونکہ ان دو ترامیم کا تعلق غیر جمہوری صدور کے اختیارات میں اضافہ کرنا تھا،
آٹھویں ترمیم کے ذریعے جنرل ضیاء الحق کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا جبکہ سترہویں ترمیم کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کو آئینی تحفظ دیا گیا، آئین کی اٹھارہویں ترمیم کو جمہوریت کیلئے مفید اور وفاق پاکستان کی اکائیوں کیلئے باعث تقویت مانا جاتا ہے،چنانچہ اسے پارلیمنٹ کی بڑی کامیابی تصورکیا جاتا ہے، تاہم دیکھنا یہ ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے کیا اثرات ہوتے ہیں اور اسے تاریخ میں کن الفاظ میں یاد رکھا جاتا ہے۔
آئین پاکستان میں پہلی ترمیم کی دستاویز کو سرکاری طور پر آئین یعنی پہلی ترمیم ایکٹ 1974ء کہا جاتا ہے، یہ ترمیم 4 مئی 1974ء کو نافذ ہوئی، اس ترمیم کی رو سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 1، 8، 17، 61، 101، 193، 199، 200، 209، 212، 250، 260 اور 272 میں تبدیلیاں کی گئیں، ان ترامیم کے بعد پاکستان کی سرحدوں کا ازسر نو تعین کیا گیا۔
دوسری ترمیم: 7 ستمبر 1974ء: 1974ء میں وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کی گئی دوسری آئینی ترمیم میں احمدیوں کو واضح طور پر آئین پاکستان نے غیر مسلم قرار دیا گیا۔ اسے ’’آرڈیننس 20‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔تیسری ترمیم: 18 فروری 1975ءکو ہونے والی تیسری آئینی ترمیم میں ریاست پاکستان کیخلاف سر گرمیوں میں ملوث شخص کی احتیاطی حراست کی مدت میں اضافہ کیا گیا۔
آئین پاکستان میں چوتھی ترمیم 21 نومبر 1975ء کو کی گئی جس کی رو سے پارلیمان میں اقلیتوں کیلئے مختص نشستوں کا از سر نو جائزہ لیا گیا اور انہیں پارلیمنٹ میں اضافی سیٹیں دی گئیں۔آئین پاکستان میں پانچویں ترمیم کی رو سے پاکستان کی تمام صوبائی عدالت عالیہ کا اختیارِ سماعت وسیع کیا گیا، ان ترامیم کو پاکستان میں 5 ستمبر 1976ء کو نافذ کیا گیا۔ججز کی ریٹائرمنٹ کی مدت بالترتیب 62 اور 65 سال کی گئی
22 دسمبر1976ءکو کی جانے والی چھٹی آئینی ترمیم کے ذریعے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی مدت بالترتیب 62 اور 65 سال کی گئی۔16مئی1777کوساتوین آئینی ترمیم کے ذریعے وزیر اعظم کو یہ پاور دی گئی کہ وہ کسی بھی وقت پاکستان کے جمہور(عوام) سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر سکتا ہے۔
11 نومبر 1985ءکو آٹھویں آئینی ترمیم کر کے پاکستانی حکومت کا نظام پارلیمانی سے نیم صدارتی نظام میں تبدیل کیا گیا، جس کے تحت صدر کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔
1985میں نویں آئینی ترمیم کر کے شریعہ لاء کو ملک کےاعلیٰ قانون کا درجہ دیا گیا۔
29 مارچ1987ء کودسویں آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کے اجلاس کا دورانیہ مقرر کیا گیا، اور قرار دیا گیا کہ دو اجلاسوں کا درمیانی وقفہ 130 دن سے زیادہ نہیں ہو گا۔
: 198میں گیارہویں ترمیمء کر کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کیلئے نشستیں مخصوص کی گئیں۔
1991میں بارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے سنگین جرائم کے تیز ترین ٹرائل کیلئے تین سال تک کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں۔
1997میں تیرہویں آئینی ترمیم کر کے صدر کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے اور وزیر اعظم کو ہٹانے کا اختیار ختم کیا گیا۔
3 جولائی1997کو چودہویں آئینی ترمیم کر کے ارکان پارلیمنٹ میں کوئی نقص پائے جانے کی صورت میں ان کو عہدوں سے ہٹانے کا قانون بنایا گیا۔
1998 میں پندرہویں آئینی ترمیم کے ذریعےشریعہ لاء کو لاگو کرنے کے بل کو مسترد کیا گیا۔
1999سولہویں ترمیم کے ذریعے کوٹہ سسٹم کی مدت 20 سے بڑھا کر 40 سال کی گئی۔
2003 میں سترہویں آئینی ترمیم کے ذریعے صدر کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔
اپریل 2010کو اٹھارہویں آئینی تمیم کے ذریعے این ڈبلیو ایف پی کا نام تبدیل کیا گیا، آرٹیکل 6 متعارف کروایا گیا اور صدر کا قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ختم کیا گیا۔
22 دسمبر 2010کو 19ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ قائم کی گئی اور عدلیہ کے دباؤ پرسپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے حوالے سے قانون وضح کیا گیا۔
14 فروری 2012ء کو بیسویں آئینی ترمیم کر کے صاف شفاف انتخابات کیلئے چیف الیکشن کمشنر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تبدیل کیا گیا۔
7 جنوری 2015ء کو 21ویں آئینی ترمیم کر کے سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد ملٹری کورٹس متعارف کروائی گئیں۔
8 جون 2016ءکو 22ویں آئینی ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات چیف الیکشن کمشنر کو دیئے گئے، چیف الیکشن کمشنر کی اہلیت کا دائرہ کار تبدیل کیا گیا اور قرار دیا گیا کہ بیورو کریٹس اور ٹیکنو کریٹس بھی ممبر الیکشن کمیشن آف پاکستان بن سکیں گے۔جون2017کو23ویں آئینی ترمیم کی گئی جس کے تحت 2015ء میں دو سال کیلئے تشکیل پانے والی ملٹری کورٹس کے دورانیے کو مزید دو سال یعنی6 جنوری 2019ءتک بڑھایا گیا۔
22 دسمبر2017ءکو 24ویں آئینی ترمیم کے تحت نہ صرف وفاقی اکائیوں کے مابین نشستوں کے تعین کا اعادہ کیا گیا بلکہ 2017 ء کی خانہ و مردم شماری کی روشنی میں نئے انتخابی حلقے تشکیل دئیے گئے۔ 31 مئی 2018ء کو ہونے والی 25 آےئینی ترمیم کے تحت فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا گیا۔
جبکہ 21اکتوبر 2024 کو ہونے والی 26ویں آئینی ترمیم کے تحت نہ صرف سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججز کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل کیا گیا بلکہ چیف جسٹس کی تعیناتی سنیارٹی کی بنیاد پر عمل میں لانے کی بجائے پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے چیف جسٹس کی تعیناتی کا طریقہ کار وضع کر کے پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا گیا۔ جب ترمیم کے ذریعے آئینی مقدمات کی سماعت کیلئے سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کی تشکیل اوروزیر اعظم کے حکامات کو عدالتی استثنیٰ دیا گیا۔