پانی کے مسئلے پر انڈیا پاکستان کی جنگ کا خطرہ کیوں بڑھ گیا؟

انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے اور پاکستان کی طرف سے اسے ایک جنگی قدم قرار دیئےجانے کے بعد دونوں نیوکلیئر ہمسائیوں کے مابین پانی کے مسئلے پر جنگ شروع ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ سرحد کے دونوں جانب وزرا کے بیانات پر نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ حالیہ کشیدگی اب براہ راست پانی کے مسئلے سے جڑی ہے اور یہی مسئلہ اس کا رُخ طے کر سکتا ہے۔
انڈیا کی جانب سے دہائیوں پرانے سندھ طاس معاہدے کی معطلی نے پاکستان کے ساتھ پہلے سے کشیدہ تعلقات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ یہ معاہدہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ان دونوں حریفوں کے درمیان تعاون کا ایک اہم ستون سمجھا جاتا تھا۔ تاہم سندھ طاس معاہدہ منسوخ کرنے کے یکطرفہ بھارتی اعلان کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے انڈیا کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس نے پاکستان کا پانی روکنے یا اس کا رُخ موڑنے کے لیے کوئی سٹرکچر بنانے کی کوشش کی تو اسے تباہ کر دیا جائے گا۔ اس سے پہلے خواجہ آصف یہ دھمکی بھی دے چکے ہیں کہ پاکستان نے نیوکلیئر ٹیکنالوجی تہواروں پر استعمال کے لیے حاصل نہیں کی تھی، لہذا حملے کی صورت میں پاکستان دشمن کیخلاف جوہری ٹیکنالوجی کے استعمال کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
آزاد کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد انڈیا نے اس معاہدے کو یکطرفہ طور معطل کر دیا ہے جس سے دونوں ملکوں میں صرف سفارتی ہی نہیں بلکہ سٹریٹجک اور عسکری سطح پر بھی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ اگر انڈیا نے دریاؤں کا بہاؤ روکا یا ان کا رُخ موڑا تو اسے ’جارحیت‘ تصور کیا جائے گا اور یہ کہ پاکستان پانی کو قومی سلامتی کے مسئلے کے طور پر دیکھتا ہے۔ دونوں طرف سے سخت زبان میں تناؤ بھرے بیانات جاری کیے جا رہے ہیں اور یہ سوال زور پکڑ رہا ہے کہ کیا جنوبی ایشیا میں اگلا تنازع علاقے یا مذہب کی بجائے پانی پر شروع ہو گا؟
پاکستانی حکام پر اعتماد ہیں کہ انڈس واٹر ٹریٹی یا سندھ طاس معاہدہ 1960 میں عالمی بینک کی نگرانی میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان طے پایا تھا۔ معاہدے کے تحت پاکستان کو مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کا مکمل کنٹرول ملا جبکہ مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج پر انڈیا کو اختیار دیا گیا۔ سندھ طاس معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان تین جنگوں اور کئی سفارتی و فوجی بحرانوں کے باوجود قائم رہا۔ مگر اب پہلی بار اس کے مستقبل پر سنگین سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ انڈیا نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس معاہدے کے تحت تعاون کو معطل کر رہا ہے اور اسکی وجہ پاکستان کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی میں ملوث ہونا قرار دیا گیا۔ پاکستان ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ واضح رہے کہ بھارتی اعلان معاہدے سے باضابطہ دستبرداری نہیں ہے لیکن تاریخی حوالے سے پاکستان کے لیے اب تک کا سب سے سنگین دھچکا ضرور ہے۔
دوسری جانب پاکستان کی حکومت نے کہا ہے کہ ’اگر انڈیا نے پاکستان کا پانی روکا یا اس کا رخ موڑا تو اسے اعلان جنگ سمجھا جائے گا اور مکمل قومی طاقت سے جواب دیا جائے گا۔نپاکستان نے یہ بھی کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے اور اس میں ’یکطرفہ معطلی کی کوئی گنجائش نہیں۔ پاکستان کے لیے پانی ایک اہم قومی مفاد اور 24 کروڑ عوام کی زندگی کی ضمانت ہے، جس کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا۔‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس معاہدے کی معطلی اور اس کے نتیجے میں پانی رکنے کی صورت میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ہو سکتی ہے؟
اس معاملے ہر لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کا کہنا یے کہ انڈیا اور ’پاکستان دونوں ایک باقاعدہ جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی فوری طور پر پانی نہیں روکا جا سکتا۔ نہ ہی اتنے بڑے دریاؤں کا رخ موڑا جا سکتا ہے۔ تاہم مستقبل میں یعنی آئندہ 15، 20 سالوں میں انڈیا ان تین دریاؤں پر کئی سو ڈیم بنا سکتا ہے جن کی منصوبہ بندی پہلے ہی انھوں نے کی ہوئی ہے اور تب پاکستان کو پانی کا بڑا مسئلہ ہوگا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر دیکھا جائے تو ہم ایک باقاعدہ بڑی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ پاکستان کے معاشی حالات بھی اس کی اجازت نہیں دیتے۔ اور نہ ہی جنگ سے وہ مقصد حاصل ہو گا جو پاکستان حاصل کرنا چاہتا ہے۔‘
سینیئر تجزیہ کار عامر ضیا اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ابھی فوری طور پر دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی بنیاد پر جنگ ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ابھی زیادہ خطرہ اس بات کا ہے کہ پہلگام حملے کے پس منظر میں انڈیا کوئی کارروائی کر سکتا ہے، مگر پانی کے مسئلے پر جنگ فی الحال نہیں ہو گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ابھی انڈیا کے پاس وسائل نہیں کہ وہ پانی روک سکے۔ لیکن اگر انڈیا اس معطلی کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو مستقبل میں یہ دونوں ملکوں کے درمیان سب سے بڑا تنازعہ بن جائے گا۔ اور پھر پاکستان کا ردعمل بھی آئے گا۔‘
شہباز شریف حکومت کے وزیر مملکت عقیل ملک نے کہا ہے کہ انڈیا کی جانب سے پانی کی تقسیم کے سندھ طاس معاہدے کی معطلی پر پاکستانی حکومت بین الاقوامی قانونی چارہ جوئی کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ عقیل ملک نے بتایا کہ ’اسلام آباد کم از کم تین مختلف قانونی آپشنز پر کام کر رہا ہے، جس میں ورلڈ بینک اور سندھ طاس معاہدے کے سہولت کاروں کے ذریعے اس مسئلے کو اٹھانا شامل ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ پاکستان دی ہیگ میں قائم مستقل ثالثی کی عدالت یا بین الاقوامی عدالت انصاف میں بھی کارروائی کرنے پر غور کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان اور انڈیا ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ یہ جنگیں 1948، 1965 اور 1971 میں لڑی گئیں۔ آخری مرتبہ 1971 میں لڑی جانے والی جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو اپنا ایک حصہ کھونا پڑا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا۔ محدود پیمانے پر ایک چوتھی جنگ سنہ 1999 میں کارگل کے مقام پر بھی لڑی گئی جس میں پہلی مرتبہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ کے خدشات کھل کر دنیا کے سامنے آئے۔
دوسری جانب تجزیہ کار اس سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ پانی پر تنازعہ کھڑا ہونے سے خطے میں ایک مثال قائم ہو جائے گی جو ’ورلڈ آرڈر‘ کو خراب کرے گی۔
عامر ضیا کے مطابق ’خود انڈیا میں بھی چین سے اہم دریا آ رہے ہیں، اگر چین یہ فیصلہ کرے کہ وہ انڈیا کے لیے پانی ڈیمز وغیرہ بنا کر روک دے گا تو انڈیا کیا کر سکتا ہے؟ میرے خیال میں خود انڈیا کی جانب سے بھی یہ سیاسی بیانیہ مضبوط کرنے کی کوشش ہے۔ اگر ایسا کرنے میں انڈیا کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر تو یہاں جنگل کا قانون چلے گا کہ کوئی بھی بڑا ملک کچھ بھی کر سکتا ہے۔