ارشد شریف کے قاتل ابھی تک بے نقاب کیوں نہیں ہو پائے؟

سینیئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے کہا ہے کہ 23 اکتوبر 2022 کو کینیا میں پراسرار حالات میں قتل ہونے والے صحافی ارشد شریف کی موت کے بعد پچھلے تین برسوں میں پاکستان بھر میں مزید 16 صحافی قتل ہو چکےہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سال 2024 میں ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان آزادی صحافت کی رینکنگ میں 152 ویں نمبر پر تھا۔ لیکن 2025 میں پاکستان چھ درجے گر کر 158 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔
حامد میر روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تحریر میں بتاتے ہیں کہ جب انہیں اپریل 2014 میں کراچی میں گولیاں ماری گئیں تو اے آر وائی سے وابستہ اینکر پرسن ارشد شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے پوچھا تھا کہ حامد میر پر قاتلانہ حملے کی انکوائری کیلئے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کہاں ہے؟ لہذا سوال یہ ہے کہ جب ارشد شریف کو کینیا میں قتل کر دیا گیا تو حامد میر نے اس کے قتل کی انکوائری کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیوں نہ کیا؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حامد میر کہتے ہیں کہ میں نے ارشد شریف قتل کی انکوائری کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ڈیڑھ سال قبل درخواست دائر کی تھی جس پر 27 اگست 2024 کو فیصلہ محفوظ کیا گیا ۔ اس دوران ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق بھی اس کیس میں فریق بن چکی تھیں۔ ایک سال گزر جانے کے بعد 25 اگست 2025 کو ایک عدالت نے ہمیں ایسا فیصلہ سنانے کے لیے بلایا جس کا سب کو پہلے سے علم تھا۔ سب جانتے تھے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ارشد شریف کے قتل کی انکوائری کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم نہیں دینا۔ جوڈیشل کمیشن بنانے کا اختیار وفاقی حکومت کا ہوتا ہے اور ہم نے درخواست کی تھی کہ عدالت وفاقی حکومت کو جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم دے۔ قبل ازیں ہم وفاقی حکومت سے بھی بار بار مطالبہ کر چکے تھے جسے تسلیم نہیں کیا گیا تھا لہذا ہمیں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔
حامد میر کے مطابق کینیا کی عدالت میں جویریہ صدیق کی درخواست پر جو فیصلہ آیا اُس میں ارشد شریف کے قتل کو ٹارگٹ کلنگ قرار دیا گیا ۔ ہم نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ کینیا کی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں ایک جوڈیشل کمیشن بنا کر قتل کے ماسٹر مائنڈ کو تلاش کیا جائے جس نے پہلے ارشد کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا اور جب ارشد نے پاکستان واپسی کا فیصلہ کیا تو انہیں کینیا میں قتل کروا دیا گیا ۔ ہمارے مطالبے کو نظر انداز کر دیا گیا لہٰذا ہم عدالت جانے پر مجبور ہوئے۔ عدالت نے ایک سال تک اپنا فیصلہ محفوظ رکھا اور پھر ہماری درخواست مسترد کردی۔ یوں ارشد شریف کے قاتل مزید محفوظ ہو گئے۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ کہہ کر ہماری درخواست مسترد کی کہ یہ معاملہ تو سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔
ہم نے بار بار اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے 2022 میں ایک از خود نوٹس ضرور لیا تھا لیکن ایک سماعت کے بعد بات آگے نہ بڑھی۔ ا سوقت عمر عطا بندیال چیف جسٹس تھے ۔ اُن کے بعد قاضی فائز عیسی چیف جسٹس بنے ۔ پھر یحییٰ آفریدی آگئے ۔ وہ بھی خاموش رہے ۔ سپریم کورٹ قتل کے مقدمے کا ٹرائل نہیں کر سکتی ۔ اس لئے ہم نے بھی کسی کو ملزم نامزد کئے بغیر اسلام آباد ہائی کورٹ سے جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا تا کہ جو بھی قتل کا ذمہ دار تھا اُسے بے نقاب کیا جا سکے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک سالہ محفوظ فیصلے میں کہا کہ درخواست گزار سپریم کورٹ سے رابطہ کریں ۔ لیکن سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے ایک دوسرے سے معاملات کسی سے ڈھکے چھےنہیں ۔ وہ کسی کو کیا انصاف دے سکتے ہیں ؟ ارشد شریف کے قتل کو تین سال مکمل ہو چکے ۔ مرحوم کی والدہ نے جن افراد کو ملزم نامزد کیا تھا اُن میں سے تو کسی ایک پر بھی مقدمہ درج نہیں ہو سکا ۔ سپریم کورٹ کا از خود نوٹس بھی آگے نہ بڑھا ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہماری انکوائری کمیشن بنانے کی درخواست مسترد کردی ۔ کیا اس کے بعد بھی کسی صحافی کو عدالتوں سے انصاف کی کوئی امید رکھنی چاہئے ؟
حامد میر یاد دلاتے ہیں کہ مجھ پر 19 اپریل 2014 ء کو کراچی میں حملہ ہوا ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن بنا جس نے تین ہفتے میں رپورٹ دینی تھی۔ گیارہ سال گزر گئے۔ اُس کمیشن کی رپورٹ سامنے نہیں آئی ۔ نہ مجھے انصاف ملا اور نہ ہی میں ارشد شریف کو انصاف دلوا سکا ۔ نوجوان صحافی مجھے پوچھتے ہیں کہ جس ملک میں آپکو انصاف نہ ملا اور جہاں ارشد شریف کو انصاف نہ ملے وہاں آزاد صحافت کا کیا مستقبل ہے ؟ یہ سوال سُن کر میری نظروں کے سامنے حیات اللہ خان، موسیٰ خان خیل اور سلیم شہزاد سمیت بہت سے صحافیوں کے چہرے گھوم جاتے ہیں جو اغواء کر کے قتل کئے گئے ۔ ان سب کے قتل کی انکوائری ہوئی۔سلیم شہزاد کے کیس میں تو ہم نے جسٹس ثاقب نثار کے سامنے کچھ ملزمان کے نام بھی لئے لیکن انصاف نہ ملا۔
حامد میر بتاتے ہیں کہ ارشد شریف کو تو 23 مارچ 2019 کو حکومت پاکستان نے عمران خان کے دور اقتدار میں پرائڈ آف پرفارمنس کا صدارتی ایوارڈ بھی دیا۔ یہ ایوارڈ یافتہ صحافی جب 10 اگست 2022 کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوا تو اس کے خلاف 16 جھوٹے کیسز قائم تھے ۔ اگر یہ پتہ چل جائے کہ یہ جھوٹے مقدمات کس کے حکم پر درج ہوئے تھے تو اسکے قاتلوں کا سراغ لگانا کوئی مشکل نہیں۔ لیکن جن صاحبان اختیار کے حکم پر صحافیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات درج ہوتے ہیں وہ صرف خوف کو سچا سمجھتے ہیں۔ اُن کی نوکری دوسروں کو جھوٹا اور غدار قرار دینے پر چلتی ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ جس ملک میں ارشد جیسےصدارتی ایوارڈ یافتہ صحافی کو انصاف نہ ملے اُس کا وزیر اعظم اور ٹرمپ جتنی بھی مسکراتی تصویریں بنا لیں، پاکستان کے نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی مایوسی کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ آج نوجوانوں کی اکثریت کو نہ تو عدالتوں پر اعتماد ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ پر ،میڈیا کی ساکھ بھی تباہ ہو چکی ہے۔
23 اکتوبر 2022 کو کینیا میں ارشد شریف کے قتل کے بعد پچھلے تین برسوں میں ملک بھر میں مزید 16 صحافی قتل ہو چکےہیں۔ 2024 میں ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان آزادی صحافت کی رینکنگ میں 152 ویں نمبر پر تھا ۔ 2025 میں پاکستان چھ درجے گر کر 158 ویں نمبر پر آ گیا ہے ۔ اس تنزلی کی وجہ پیکا ترمیمی ایکٹ ہے جسے صحافی برادری نے کالا قانون قرار دیا ہے۔ اس سیاہ قانون کو پاکستان کے اندر اور باہر صحافیوں کی تمام قومی و بین الاقوامی تنظیموں نے مسترد کر دیا ہے۔ آج پاکستان کی حکومت بار بار کہتی ہے کہ مئی 2025 کی پاک بھارت جنگ نے ثابت کر دیا کہ پاکستان کا میڈیا بھارتی میڈیا سے زیادہ ذمہ دار ہے ۔ ایک طرف حکومت پاکستانی میڈیا کو ذمہ دار قرار دیتی ہے تو دوسری طرف اس حکومت کو میڈیا کی آواز دبانے کیلئے پیکا قانون کی ضرورت پڑ جاتی ہے ۔ ایک طرف صحافیوں کو معرکہ حق میں سچ بولنے پر تمغے دیےجاتے ہیں دوسری طرف وہ صحافی ارشد شریف کے چار بچوں کی آنکھوں سے آنکھیں نہیں ملا سکتے کیونکہ ان کے باپ کے قاتل قانون پر مسلسل حاوی ہیں۔ پاکستان کو ایک عظیم ملک بنانے کیلئےیہاں آئین وقانون کی بالادستی قائم کرنا ہو گی ۔ جب تک پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیاکی ساکھ بحال نہیں ہوتی کوئی ایک ادارہ یا ایک وفاقی حکومت پاکستان کو عظیم نہیں بنا سکتی۔ ارشد شریف کو انصاف دیکر یہ ریاست نوجوانوں کی نظروں میں تھوڑی سی عزت تو حاصل کر سکتی تھی لیکن اس وقت ریاستی ترجیح شہریوں کو مطمئن کرنانہیں بلکہ انکو قابو میں رکھنا ہے۔ ایسی ریاست میں مجھ جیسے لوگ ارشد شریف کی تیسری برسی پر اسے صرف سوری کہہ سکتے ہیں۔
