عمران کے وسیم اکرم پلس عثمان بزدار گھر تک محدود کیوں؟

عمران خان کے دریافت کردہ وسیم اکرم پلس یعنی سابق وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار اسٹیبلشمنٹ کی تشکیل کردہ تحریک استحکام پاکستان میں شمولیت کی ناکام کوشش کے بعد سے ڈیرہ غازی خان میں اپنے حلقے تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور سیاسی طور پر بالکل غیر فعال زندگی گزار رہے ہیں۔
یاد رہے کہ عمران خان کی تیسری اہلیہ بشری بی بی نے عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلی بنوایا تھا جس کے بعد انہوں نے ساڑھے تین سال کے اقتدار میں صوبے کے ناکام ترین وزیراعلی کا ٹائٹل حاصل کیا۔ 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے بعد عثمان بزدار نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی اور پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ انہوں نے تحریک انصاف کے درجنوں دیگر رہنماؤں کی طرح ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر ہونے والے حملے ناقابلِ قبول ہیں اور اسی وجہ وہ پی ٹی آئی چھوڑ رہے ہیں۔
بعد ازاں انہوں نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے تشکیل کردہ تحریک استحکام میں شمولیت کی کوشش کی اور کئی مرتبہ علیم خان سے پارٹی دفتر جا کر بھی، تاہم ان کی بطور وزیراعلی کارکردگی ان کی استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت کے راستے میں رکاوٹ بن گئی۔ چنانچہ انہوں نے 2024 کے انتخابات میں بھی حصہ نہیں لیا۔ اس کے بعد جب بطور وزیراعلی بزدار کی کرپشن کے کیسز سامنے آنا شروع ہوئے تو وہ روپوش ہو گے۔ اب موصوف منظر عام پر تو آ چکے ہیں لیکن انہوں نے خود کو ڈیرہ غازی خان میں اپنے حلقے تک محدود کر لیا 06C1ے اور شاذ و نادر ہی گھر سے باہر نکلتے ہیں۔ یعنی کپتان کے وسیم اکرم پلس بطور وزیراعلی پنجاب ایک ناکام اننگز کھیلنے کے بعد فی الحال سیاست کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ یاد رہے کہ عثمان بزدار کی اہلیہ ایک اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ بزدار نے اپنی وزارت اعلی کے دور میں ان کا تبادلہ ملتان سے لاہور کروا دیا تھا لیکن اقتدار سے فراغت کے بعد اب دوبارہ انکی ٹرانسفر لاہور سے ملتان ہو چکی ہے۔
یاد رہے کہ سردار عثمان بزدار کا سیاسی سفر غیر متوقع نشیب و فراز سے عبارت ہے۔ تونسہ شریف کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے بزدار نے 2018 کے عام انتخابات کے بعد حیران کن طور پر لمبی چھلانگ لگائی۔ انہوں نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر پہلی بار پنجاب اسمبلی کی نشست جیتی اور براہِ راست پنجاب کے سب سے بڑے عہدے کے امیدوار قرار پائے۔ الیکشن 2024 میں انہوں نے 27 ہزار 227 ووٹ لیے اور آزاد امیدوار خواجہ محمد نظام المحمود کو شکست دی۔ وزارتِ اعلیٰ تک پہنچنے سے قبل بزدار مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ رہے۔ وہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا حصہ بھی رہ چکے تھے، جبکہ 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر حصہ لیا مگر ناکام رہے۔ اس سے قبل 2002 سے 2008 تک وہ مسلم لیگ (ق) سے وابستہ رہے اور جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں تونسہ کے تحصیل ناظم بھی رہے۔ تعلیمی لحاظ سے عثمان بزدار نے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی کی مشکلات کی بڑی وجہ پنجاب میں عثمان بزدار اور خیبر پختونخوا میں محمود خان کی بطور وزرائے اعلیٰ تقرری تھی۔ ان کا خیال ہے کہ عمران خان نے دونوں کا انتخاب اس لیے کیا کہ وہ صوبوں کو بنی گالا سے کنٹرول کرنا چاہتے تھے، لیکن یہ فیصلہ پارٹی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ بزدار کے دورِ حکومت میں گورننس کا بحران رہا جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وزیراعلی ڈمی تھا اور اسے بشری بی بی چلاتی تھی، بزدار دور میں بار بار آئی جی اور چیف سیکریٹری تبدیل کیے گئے، لیکن گورننس میں بہتری نہیں آئی۔ اسی وجہ سے آج پی ٹی آئی کا کوئی رہنما بزدار کے دور کے قابل ذکر کارنامے بیان نہیں کرتا۔
2018 کے عام انتخابات میں عثمان بزدار نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر حلقہ پی پی-281 (ڈیرہ غازی خان) سے کامیابی حاصل کی۔ اسکے بعد عمران خان کی تیسری اہلیہ اور انکی سہیلی فرح گوگی کے طفیل وہ وزیر اعلی بن گئے۔ 19 اگست 2018 کو پنجاب اسمبلی میں ووٹنگ کے دوران انہیں 186 ووٹ ملے جبکہ حمزہ شہباز کو 159 ووٹ ملے۔ اگلے ہی روز وہ پنجاب کے 22ویں وزیراعلیٰ بن گئے۔ پھر 28 مارچ 2022 کو تحریک عدم اعتماد پر انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ ان کا دورِ حکومت 30 اپریل 2023 تک جاری رہا، جب چودھری پرویز الہیٰ نے عہدہ سنبھالا۔ جنوری 2023 میں ان کی اسمبلی رکنیت بھی ختم ہوگئی۔ مخالفین نے ان کے دور کو پنجاب کی تاریخ کا ناکام ترین دور قرار دیا، تاہم بزدار نے ان الزامات کو ہمیشہ مسترد کیا۔
لاہور کے انڈرورلڈ ڈانز کی لڑائی میڈیا پر کیسے آئی؟
آج عثمان بزدار عملی سیاست سے مکمل طور پر غائب ہیں، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کی سیاسی واپسی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یوں وہ ایک بڑے عہدے پر فائز رہنے کے باوجود عوامی منظر سے پس منظر میں جا چکے ہیں جس کی بنیادی وجہ ان کی اپنی نااہلی ہے۔
