ججز کی تقرری کا اختیار ججز کے پاس ہونا جائز کیوں نہیں ہے؟
پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی اتحادی حکومت کی جانب سے آئینی ترامیم پر مبنی جوڈیشل پیکج کو مؤخر کیے جانے کے باوجود یہ بحث جاری ہے کہ کیا حکومت یہ ترامیم بدنیتی کے تحت کرنا چاہتی ہے یا جمہوریت کے مفاد میں ایسا کرنا ضروری ہے۔ مجوزہ جوڈیشل پیکج کے حوالے سے حکومت کا موقف ہے کہ ججز کی تقرری کا اختیار اصولی طور پر ججز کے پاس نہیں ہونا چاہیے، اگر فوجی سربراہوں کا تقرر وزیراعظم کا اختیار ہے تو ججز کی تقرری کا اختیار بھی وزیراعظم ہی کے پاس ہونا چاہیے۔ یاد رہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت ججز کی تقرری کا اختیار پارلیمینٹ کو سونپ دیا گیا تھا جیسا کہ دیگر مہذب ممالک میں ہوتا ہے، لیکن بقول بلاول بھٹو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پیپلز پارٹی حکومت کو گن پوائنٹ پر لے کر 19ویں آئینی ترمیم کروائی اور ججز کی تقرری کا اختیار ججز کو سونپ دیا گیا۔ اس ترمیم کا نقصان یہ ہوا کہ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس ایک منتخب حکومت سے زیادہ طاقتور ہو گئے اور پھر دو منتخب وزرائے اعظم یعنی یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو نا اہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا۔
یاد رہے کہ نواز شریف نے مشرف کے ہاتھوں برطرف ہونے والے ججز کی بحالی کے لیے پیپلز پارٹی کی حکومت پر دباؤ ڈالا تھا اور یوسف رضا گیلانی نے افتخار چوہدری سمیت تمام برطرف ججز کو بحال کیا تھا۔ تاہم بحال کیے جانے والے انہی ججز نے یوسف رضا گیلانی کو ناہل قرار دے کر گھر بھیج دیا۔ اتحادی حکومت نے جوڈیشل پیکج میں ایک آئینی عدالت کے قیام کی تجویز بھی دی ہے جس کا بنیادی کام صرف آئینی اور سیاسی کیسز سننا ہوگا۔ حکومت کا موقف ہے کہ آئینی عدالت کے قیام سے سپریم کورٹ اف پاکستان پر بوجھ کم ہو جائے گا اور وہ مفاد عامہ کے کیسز سننے کی اصل ذمہ داری زیادہ فوکس ہو کر سرانجام دے سکے گی۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے مجوزہ ترمیمی پیکج کی شدید مخالفت کی ہے جس کے بعد اس معاملے کو وقتی طور پر موخر کر دیا گیا ہے۔ اپوزیشن نہ صرف جوڈیشل پیکج کی ٹائمنگ پر سوال اٹھا رہی ہے بلکہ حکومت کی نیت پر بھی شک کر رہی ہے۔ یاد رہے ججز کی تقرری کے سسٹم کے تحت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ججز کے لیے نام تجویز کرتا ہے جس کے بعد ایک پارلیمانی کمیٹی ان کی رسمی منظوری دیتی ہے ۔ یعنی پارلیمان کے کردار کو محض ربر سٹمپ تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اسکے علاوہ ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کچھ ججز اپنی سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر سیاست شروع کر دیتے ہیں اور حکومت کو نشانہ بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے وزیر دفاع خواجہ اصف نے یہ بیان داغا ہے کہ اعلی عدلیہ کے ججز اپنی سیاسی جماعت بنا لیں تو ذیادہ بہتر ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں افتخار محمد چوہدری نے بھی جسٹس پارٹی بنائی تھی جس کا بعد میں پھلکا اڑ گیا۔
کیا مولانا اپنی قیمت وصول کر کے حکومت کے ساتھ مل جائیں گے ؟
یہی وہ مسائل ہیں جن کی بنیاد پر اتحادی حکومت آئینی ترامیم کے ذریعے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کی تقرری کے طریقہ کار کو تبدیل کر کے اس حوالے سے پارلیمنٹ کو با اختیار بنانا چاہتی ہے۔
لیکن دوسری جانب اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت اعلیٰ عدالتوں خصوصاً اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں سے خود کو مشکل میں محسوس کر رہی ہے اور اسی لیے ججوں کی تقرری کے طریقہ کار ہی کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چونکہ کچھ ہائی کورٹس کے ججز آئین اور قانون کو بھلا کر اپنی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر فیصلے دے رہے ہیں لہٰذا ایک ایسی ترمیم بھی تجویز کی گئی ہے جس کے ذریعے ہائی کورٹ کے جج کو ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں ٹرانسفر کیا جا سکے گا۔
مجوزہ آئینی ترمیم کے ذریعے وزیر اعظم پانچ سینئیر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا انتخاب کر سکیں گے۔ یاد رہے کہ آرمی چیف کی تقرری بھی سینیارٹی کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ پانچ سینیئر جرنیلوں کے پینل میں سے ایک جرنیل کو فوجی سربراہ چنا جاتا ہے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم وزیر تارڑ کا کہنا ہے کہ جوڈیشل پیکج میں کوئی بدنیتی شامل نہیں اور اس کی مرکزی شقیں 2006 میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مابین لندن میں طے پانے والے چارٹر آف ڈیموکریسی کا حصہ ہیں۔
ادھر قومی اسمبلی میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ مجوزہ آئینی ترامیم کا مقصد 19 ویں آئینی ترمیم کو درست کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم 25 کروڑ عوام کی نمائندہ پارلیمان کو اسی طرح طاقت ور بنانا چاہتے ہیں جس طرح کہ آئین کہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ججز کی تقرری میں پارلیمان کا کردار ربر اسٹمپ کا نہیں ہونا چاہیے لہٰذا پارلیمنٹ کا حق حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی کا اختیار صرف پارلیمان کے پاس ہے اور اس کا یہ حق سب کو تسلیم کرنا ہو گا۔