حکومت اور PTI مذاکرات کا نتیجہ صفر جمع صفر کیوں ہو گا؟

کئی ماہ کی تلخیوں اور تعطل کے بعد وفاقی حکومت اور تحریک انصاف مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔دونوں اطراف سے کمیٹیوں کی تشکیل اور مذاکرات کے اعتراف نے ملک بھر میں خدشات کے ساتھ ساتھ محتاط امیدیں جگا دی ہیں۔ مبصرین کے مطابق اگرچہ اپوزیشن اور حکومت کا مل بیٹھنا خوش آئند ہے تاہم  پی ٹی آئی 9 مئی کے ملزمان کو سزائیں سنائے جانے کے فوری بعد جس ریلیف کی امید لگائے حکومت کے ساتھ بیٹھنے پر آمادہ ہوئی ہے۔ حکومت کی جانب سے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو نہ تو وہ ریلیف مل سکتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کا این آر او ملنا ممکن ہے۔ کیونکہ سزایافتہ شرپسند یوتھیوں کے اعترافی بیانات کی روشنی میں سانحہ 9 مئی کی وارداتوں کے ماسٹر مائنڈ عمران خان تھے اور عسکری قیادت سانحہ 9 مئی میں ملوث ملزمان اور منصوبہ سازوں کو کوئی ریلیف دینے کو تیار نہیں۔ عسکری قیادت 9 مئی کے تمام ملزمان کو نشان عبرت بنانے کیلئے پرعزم ہے تاکہ آئندہ کسی بھی شخص کو فوج میں بغاوت اور عسکری املاک پر یلغار کی جرات نہ ہو۔ تجزیہ کاروں کے مطابق فوجی و سیاسی قیادت کی جانب سے سانحہ 9 مئی کے ملزمان سے کوئی رعایت نہ برتنے کے دوٹوک موقف کی وجہ سے پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین شروع ہونے والے مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کا امکان معدوم ہیں۔ اس وجہ سے اس مذاکراتی عمل کے نشستن، گفتن اور برخاستن کی حد تک محدود رہنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین  مذاکرات بارے گفتگو کرتے ہوئے پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ دونوں اطراف کو مذاکراتی عمل کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے باہمی اعتماد سازی کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیں۔ پی ٹی آئی کی جانب سے ان اقدامات میں غیر مہذب زبان کا استعمال روکنا، بیرون ملک بیٹھے عناصر سے مکمل علیحدگی کا اعلان کرنا اور فوجی قیادت پر سخت اور فحش زبان میں تنقید کو ختم کرنا شامل ہوسکتے ہیں۔ جس کے بعد حکومت کو بھی پی ٹی آئی کے مثبت رویے کو سامنے رکھتے ہوئے تھوڑا ہاتھ ہلکا کرنا چاہیے۔

تاہم سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے دو سال تک حکومت سے مذاکرات کرنے سے انکار کرنے کے بعد اب اس پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ یہ عمران خان کے اس سابق موقف کہ وہ جیل کی کوٹھری سے انقلاب برپا کر سکتے ہیں سے بہت دور کی بات ہے۔انہوں نے تجویز دی پی ٹی آئی کو دوسری جماعتوں کو بدمعاش اور غدار قرار دینے کے بجائے ان کی قانونی حیثیت کو قبول کرنا ہو گا۔ اس کے بعد ہی عمران خان کیلئے ریلیف کے دروازے کھل سکتے ہیں تاہم مستقبل میں جارحانہ طرز عمل اپنانے پر پی ٹی آئی کی سیاست ہمیشہ کیلئے ختم ہو سکتی ہے۔

سینیئر تجزیہ کار حماد حسن کے مطابق اس وقت پی ٹی آئی الجھن اور انتشار کا شکار ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس کوئی واضح ڈائریکشن نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ ہم سب جانتے ہیں کہ حکومت کے پاس مذاکرات کے لیے کتنا اختیار ہے، اگر ان مذاکرات کو مقتدر قوتوں کی حمایت حاصل ہے تو پھر ٹھیک ہے، لیکن اگر ان کی حمایت حاصل نہیں تو پھر یہ سب پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں انگیج کرنے کی حد تک ہے، اس سے زیادہ نتائج برآمد نہیں ہوسکتے۔حماد حسن کا مزید کہنا تھا کہ اگر تحریک انصاف اس وقت بھی مقتدرہ کے ساتھ رابطے میں ہے تو انہیں وہیں سے کچھ مل سکتا ہے، حکومت کے ساتھ مذاکرات سے کچھ حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔انہوں نے مزید کہاکہ عمران خان کی رہائی وزیراعظم اور پارلیمان میں موجود افراد کا اختیار نہیں ہے، یہ جن کا اختیار ہے ان کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہیے تھے۔ لیکن موجودہ حالات میں مقتدرہ کے ساتھ پی ٹی آئی کے مذاکرات کا کوئی امکان نہیں کیونکہ تحریک انصاف کے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت بیانیے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف سے بات کرنے پر ہی آمادہ نہیں۔

بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق سانحہ 9 مئی کے ملزمان کو سنائی گئی سزاوں کی وجہ سے تحریک انصاف کو بہت زیادہ پریشر کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ کہا جارہا ہے کہ 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ کو بھی ضرور سزا دی جائے گی، اس کا واضح مطلب ہے کہ عمران خان کو بھی سزا سنائی جائے گی، اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پی ٹی آئی کے لیے بہت بڑا المیہ ہوگا۔مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین مذاکرات صرف انگیج رکھنے کی حد تک ہوسکتے ہیں کیونکہ جب سزائیں سنا دی جائیں گی تو پھر یہ نہیں ہوسکتا کہ فوج پیچھے ہٹ جائے اور سب کو معاف کردیا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت مذاکرات بارے کوئی بھی پیشگوئی کرنا قبل از وقت ہے تاہم ایک چیز ضرور ہے کہ 26 نومبر کے بعد سے تحریک انصاف بیک فٹ پر ہے۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ آگے ان کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے، اسی لیے اب مذاکرات کی بات پر آمادہ ہوئے تاکہ کہا جاسکے کہ ہماری بات چیت جاری ہے۔

Back to top button