کیا امریکی امداد بند ہونے سے پاکستانی تنظیموں کو فرق پڑے گا؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بار اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی یو ایس ایڈ کے فنڈز مکمل طور پر منجمد کر دئیے ہیں۔ ٹرمپ کے اس فیصلے نے دنیا کے متعدد ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بہت سے حلقوں کو مایوسی اور بے یقینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی امداد کی بندش سے حکومت کو تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا تاہم اگرامریکی ترقیاتی ادارے یو ایس ایڈ کی فنڈنگ بحال نہ کی گئی تو پاکستان میں فلاحی کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ نقصان اس امداد سے مستفید ہونے والے افراد کا ہو گا جبکہ اس بندش کا خمیازہ امریکیوں کو بھی بھگتنا پڑے گا کیونکہ یو ایس ایڈ کے تحت پاکستان آنے والے امداد کا 70 فیصد حصہ واپس مشاورتی خدمات کی مد میں امریکہ واپس چلا جاتا ہے۔ اس لئے اس فیصلے سے امریکی تنظیمیں بھی شدید متاثر ہونگی۔

پاکستان میں یو ایس ایڈ کے فنڈز پر انحصار کرنے والی این جی اوز فنڈنگ کی بندش کے بعد اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔ ان میں سے کئی نے اپنی فلاحی سرگرمیاں روک دی ہیں اور پہلے مرحلے میں اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں ستر فیصد تک کمی کر دی ہے۔

خیال رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ابتدائی طور پر یو ایس ایڈ کے فنڈز نوے دن کے لیے منجمد کیے ہیں اور اس دوران امریکی حکومت دنیا میں دی جانے والے امدادی رقوم کے استعمال کے حوالے سے جائزہ لے گی۔ تفصیلی جائزے کے بعد ہی امریکی حکومت فیصلہ کرے گی کہ کس پراجیکٹ کے لیے فنڈنگ جاری رکھی جائے اور کس کی مالی امداد مکمل بند کر دی جائے۔

فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک کے ترجمان رشید چوہدری کہتے ہیں، "یہ نوے دن نہایت اہم ہیں کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس مدت کے دوران منصوبوں کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ اس کے بعد ہی ہم اندازہ لگا سکیں گے کہ اصل نقصان کتنا ہو گا۔”

واضح رہے کہ پاکستان میں ایک لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ این جی اوز موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر فعال نہیں ہیں لیکن جو کام کر رہی ہیں وہ اصلاحات، ایڈووکیسی اور فلاحی شعبوں میں کام سرگرمیاں سر انجام دی رہی ہیں۔ ان میں صحت، استعداد کاری اور غربت کے خاتمے جیسے امور کر ترجیح دی جاتی ہے۔

مبصرین کے مطابق صدر ٹرمپ کے فیصلے سےجو تنظیمیں اصلاحات اور ایڈووکیسی کے شعبے میں کام کر رہی ہیں وہ ضرور متاثر ہوں گی لیکن اتنی زیادہ نہیں جتنی کہ وہ تنظیمیں جو انسانی امداد کے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، "فنڈنگ رکنے کے بعد نہ صرف لوگ اپنی ملازمتیں کھو دیں گے بلکہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لاکھوں لوگ جو انسانی امدادی منصوبوں سے مستفید ہو رہے ہیں، وہ سب سے زیادہ متاثر ہوں گے کیونکہ بہت سی این جی اوز صحت اور تعلیم کے شعبوں میں کام کر رہی ہیں اور فنڈز کی بندش ان تنظیموں سے مستفید ہونے والے لاکھوں افراد کو متاثر کرے گی۔” مبصرین کے مطابق حکومت تو فلاحی کاموں میں کوئی خاص حصہ نہں ڈالتی اور این جی اوز کے بند ہونے سے وہ لوگ جو ان سے فائدہ اٹھاتے تھے بہت پریشان ہوں گے۔

اگرچہ این جی اوز کے منیجرز اور چیف ایگزیکٹوز کو ملازمتوں کے حوالے سے زیادہ تشویش نہیں ہے لیکن وہ فنڈز کی بندش کے معاشرے کے دیگر افراد پر ممکنہ منفی اثرات پر زیادہ فکر مند ہیں۔ تاہم این جی اوز میں کام کرنے والے افراد اس صورتحال پروقت کافی پریشان ہیں۔ایک این جی او سے وابستہ ایک کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ "ہماری تنخواہ اس وقت ہماری سابقہ تنخواہ کے پچیس فیصد تک آ گئی ہیں، یعنی اگر میری تنخواہ چار لاکھ تھی تو وہ کم ہو کر ایک لاکھ ہو گئی ہے۔ اگر فنڈز بحال نہ ہوئے، تو ہمیں اپنی ملازمتیں کھو دینے کا خطرہ ہے۔”

ماہرین کا کہنا ہے کہ یو ایس ایڈ کے فندز منجمند ہونے سے اصلاحات کے شعبے میں کام کرنے والی این جی اوز کو اتنا نقصان نہیں ہو گا جتنا کہ ان تنظیموں کو ہو گا جو پاکستان کے غریب عوام کو براہ راست امداد فراہم کر رہی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق سب سے بڑی پریشانی ان تنظیموں کے لیے ہے، جو انسانی امدادی منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ بہت سی این جی اوز نرم شرائط پر قرض بھی فراہم کرتی ہیں اور لوگوں کو غربت سے نکالنے کے لیے کام کرتی ہیں، فنڈنگ کی وجہ سے ان این جی اوز کے آپریشن بند ہونے سے ان سے مستفید ہونے والے لاکھوں افراد پر بہت برا اثر پڑے گا۔

ماہرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ فنڈز کی بندش سے نہ صرف پاکستان متاثر ہوگا بلکہ وہ کئی غیر ملکی این جی اوز بھی نقصان اٹھائیں گی جو یو ایس ایڈ کے منصوبوں کے لیے مشاورتی خدمات فراہم کر رہی تھیں۔ ماہرین نے واضح کیا کہ یو ایس ایڈ کی طرف سے کسی منصوبے کے لیے مختص شدہ تمام رقوم پاکستان میں خرچ نہیں کی جاتی بلکہ اس کا ایک چھوٹا حصہ پاکستان میں استعمال ہوتا ہے جبکہ زیادہ تر رقوم واپس یو ایس ایڈ کی ان تنظیموں کے پاس چلی جاتی ہے جو ان منصوبوں کے لیے مشاورتی خدمات فراہم کرتی ہیں۔ اس لئے ٹرمپ۔کے فیصلے سے جہاں پاکستانی عوام متاثر ہونگے وہیں امریکی عوام کو بھی اس کا خمیازہ بھگتناپڑےگا۔”

Back to top button