کیا تحریک انصاف پر بطور جماعت پابندی لگ جائے گی؟

فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی نے دیر آید درست آید کے مصداق تحریک انصاف کو ممنوعہ ذرائع سے فارن فنڈنگ کے ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کرکے نہ صرف مدعی مقدمہ اکبر ایس بابر کے الزامات کو درست ثابت کر دیا ہے بلکہ پی ٹی آئی کے بطور جماعت کالعدم ہونے کے خدشات میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔
تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس میں بالآخر سات برس بعد الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے جس میں کمیٹی نے تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن کو دی گئی تفصیلات میں تضادات اور غلط بیانیوں کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے انتخابی قوانین میں کسی بھی غیر ملکی فرد یا ادارے سے پارٹی کے لیے فنڈنگ لینا ایک سنگین جرم ہے اور بظاہر پی ٹی آئی اس جرم میں ملوث پائی گئی ہے۔ تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکمراں جماعت نے نہ صرف غیر ملکی اداروں سے فنڈز وصول کئے بلکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے 31 کروڑ روپے سے زائد کی رقم چھپا کر رکھی۔ رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کی طرف سے 52 بینک اکاؤنٹس ظاہر ہی نہیں کیے گئے اور الیکشن کمیشن کو صرف 12 اکاؤنٹس کے بارے میں بتایا گیا۔
سات برس کے صبر آزما انتظار کے بعد سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد الیکشن کمیشن اب فارن فنڈنگ کیس کی باقاعدہ سماعت کرے گا۔۔
الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کے مطابق پی ٹی آئی کو 1414 پاکستانی، 47 غیر ملکیوں اور 119 ممکنہ غیر ملکی کمپنیوں نے فنڈز دیے جبکہ اسکروٹنی کمیٹی کو پی ٹی آئی کے امریکی بینک اکاؤنٹس تک رسائی حاصل نہ ہو سکی۔ اس تہلکہ خیز رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے 2010 اور 2013 کے درمیان صرف امریکا سے 23 لاکھ 44 ہزار 882 ڈالرز کے فنڈز اکٹھے کیے، یہ فنڈنگ کرنے والوں میں 4755 پاکستانی، 41 غیر ملکی اور 230 فارن کمپنیز شامل تھیں۔ رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک ڈیٹا سے انکشاف ہوا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاکستان میں 26 بینک اکاؤنٹس ہیں۔ اسٹیٹ بینک سے ملنے والی تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کو امریکا اور دیگر ممالک سے فنڈز ملے جن میں دبئی، برطانیہ، یورپ، ڈنمارک، جاپان، کینیڈا، آسٹریلیا اور دیگر ممالک شامل ہیں۔
سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اسکروٹنی کمیٹی پی ٹی آئی کے فنڈنگ کے ذرائع پر تبصرہ نہیں کر سکتی۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ دبئی سے پی ٹی آئی کو ملنے والے 22 لاکھ ڈالرز کی تفصیلات نجی بینک نے اسٹیٹ بینک کو فراہم کیں تاہم سکروٹنی کمیٹی کو یو اے ای سے ملنے والی فنڈنگ کی مزید تفصیل تک رسائی نہ مل سکی۔ اسی طرح برطانیہ سے ملنے والے فنڈز کی تفصیلات بھی فراہم نہیں کی گئیں، اس لیے سورس آف فنڈز پر تبصرہ ممکن نہیں، یورپ سے پی ٹی آئی کو ملنے والی رقوم کی تفصیلات بھی فراہم نہیں کی گئیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسکروٹنی کمیٹی عدم معلومات کی بنیاد پر یورپ سے سورس آف فنڈنگ پر تبصرہ نہیں کر سکتی۔ اسی طرح جاپان، آسٹریلیا، ڈنمارک سے فنڈز کی معلومات کی عدم فراہمی کی بنیاد پر سورس آف فنڈنگ پر رائے دینا ممکن نہیں۔
سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ سال 2008 سے 2013 تک پی ٹی آئی نے اکاؤنٹس میں 1 ارب 33 کروڑ کی فنڈنگ ظاہر کی، اسٹیٹ بینک رپورٹ کے مطابق اصل رقم 1 ارب 64 کروڑ روپے تھی۔ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو دی گئی دستاویز میں 31 کروڑ کی رقم ظاہر نہیں کی، پی ٹی آئی نے گوشواروں میں 3 بینکوں کے اکاؤنٹس کو بھی ظاہر نہیں کیا۔ کمیٹی رپورٹ کے مطابق پانچ سالوں تک پی ٹی آئی کی آڈیٹر فرم ایک جیسی تحریر پر مبنی رپورٹ جاری کرتی رہی، پی ٹی آئی نے آخری سال میں آڈیٹر فرم بدلی مگر آڈٹ رپورٹ کی تحریر وہی رہی۔ اسکروٹنی کمیٹی کی جانب سے بتایا گیا کہ کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ آڈٹ رپورٹس اور پی ٹی آئی کی بینک اسٹیٹمنٹس میں تضاد ہے۔
کمیٹی کا کہنا تھا کہ تحقیق کے دوران پی ٹی آئی کے امریکا اور دیگر ممالک سے فنڈنگ کی تفصیلات سامنے آئیں۔ کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ امریکااور دوسرے ملکوں سے فنڈنگ کی تفصیلات پر سوالنامہ دیا مگر واضح جواب نہ دیا۔
آڈیو اور ویڈیو لیکس کی سیاست میں تیزی کیوں آنے والی ہے؟
رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کو یورپی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، سنگاپور، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ اور فن لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فنڈز موصول ہوئے۔ کمیشن کے مطابق تحریک انصاف کو نیوزی لینڈ سے موصول ہونے والے فنڈ تک سکروٹنی کمیٹی کو رسائی نہیں دی گئی۔ کمیٹی کے مطابق جب تحریک انصاف سمیت فریقین کی طرف سے مکمل ڈیٹا تک رسائی سے متعلق تعاون نہیں کیا گیا تو پھر کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی اجازت سے سٹیٹ بینک آف پاکستان اور پاکستان کے دیگر بینکوں سے 2009 سے 2013 کے ریکارڈ تک رسائی حاصل کی اور یوں یہ رپورٹ مرتب کی گئی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق سٹیٹ بینک کے ریکارڈ میں انکشاف ہوا کہ عمران خان کی جماعت کے 65 بینک اکاؤنٹ ہیں اور سال 2008-09 اور 2012-13 میں تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے سامنے ایک ارب 33 کروڑ روپے کے عطیات ظاہر کیے۔ سٹیٹ بینک کی بینک سٹیٹمنٹ سے ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی کو ایک ارب 64 کروڑ روپے کے عطیات موصول ہوئے۔ یوں تحریک انصاف نے 31 کروڑ روپے سے زائد کی رقم الیکشن کمیشن میں ظاہر نہیں کی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن کو میرٹ پر فیصلہ کرنے سے نہ روکا گیا تو سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر تحریک انصاف کو بطور جماعت کالعدم قرار دیا جا سکتا یے۔ اس حوالے سے سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اس وقت ریڈ زون میں داخل ہو گئی ہے۔ اُن کے بقول اس کیس کی وجہ سے اخلاقی طور پر پی ٹی آئی کو بہت زیادہ نقصان ہو گا جو ہمیشہ شفافیت کا نعرہ لگاتی رہی ہے۔ کنور کا کہنا تھا کہ اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد الیکشن کمیشن کے ممبران کسی نتیجہ پر پہنچیں گے، اگر کمیشن اسکروٹنی کمیٹی کی اس رپورٹ کی توثیق کر دیتا ہے تو اس کے بعد تمام ممنوعہ فنڈنگ کو بحق سرکار ضبط کر لیا جائے گا۔ اُن کے بقول اگر ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو جائے تو الیکشن کمیشن اس سیاسی جماعت کو الاٹ شدہ انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے۔ لہذٰا پارٹی کے نشان کے تحت انتخاب جیتنے والے آزاد اراکینِ پارلیمنٹ سمجھے جائیں گے۔ کنور دلشاد کہتے ہیں کہ اگر پارٹی نشان واپس ہوا تو لامحالہ پارٹی کی رجسٹریشن پر بھی سوال اُٹھیں گے۔
معروف سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ شاید اس فیصلہ سے کوئی بڑا سیاسی نقصان نہ ہو لیکن اس وقت جو تبدیلی کی فضا بنی ہے جس میں افواہیں ہیں اور حکومت کے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اُن کے بقول ایسے میں منفی فیصلہ آنا تحریکِ انصاف کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔
