ثاقب نثار کے ساتھی جج ان سے جان چھڑانا چاہتے تھے


اس تاثر کو رد کرتے ہوئے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف چیف جسٹس ثاقب نثار کو ایک ریفرنس کے ذریعے فارغ کرنا چاہتے تھے، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ دراصل ثاقب نثار کے ساتھی جج بھی ان سے بہت زیادہ تنگ تھے اور وہ انہیں سپریم کورٹ کے سربراہ کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ لیکن انہوں نے بطور وزیراعظم ایسا کوئی کام نہیں ہونے دیا۔ شاہد خاقان عباسی نے یہ ردعمل سینئر صحافی انصار عباسی کی اس خبر کے بعد دیا جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ نواز شریف نے بطور وزیر اعظم فارغ کیے جانے کے بعد شاہد خاقان عباسی کے ذریعے ثاقب نثار کو گھر بھیجنے کی سازش کی تھی۔ یاد رہے کہ نواز شریف کی اقامہ رکھنے کے الزام میں نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو نیا وزیراعظم بنایا گیا تھا۔ اس معاملے پر شاہد خاقان عباسی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ 2017ء کے آخر میں ان سے اعلیٰ عدلیہ کے قابل بھروسہ مصالحت کاروں نے رابطہ کیا تھا کیونکہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں مس کنڈکٹ کا ریفرنس دائر کرنا چاہتے تھے۔ انصار عباسی کی خبرر پر تبصرہ کرتے ہوئے شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے اس معاملے میں بنیادی حقائق کو مسخ کیا گیا ہے کیونکہ ثاقب نثار کے خلاف نواز شریف نہیں بلکہ ان کے ساتھی ججز ریفرنس لانا چاہتے تھے۔ میاں صاحب تو تب وزیراعظم ہی نہیں رہے تھے جب کی بات کی جا رہی ہے اور نہ ہی کبھی انہوں نے ایسی کوئی ہدایت جاری کی۔ شاہد خاقان نے کہا کہ جب میں وزیراعظم تھا، اس وقت 2017ء کے اواخر میں مجھ سے اعلیٰ سطح کی عدلیہ کے ججوں کے مصالحت کاروں نے رابطہ کیا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ حکومت سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس پاکستان کیخلاف مس کنڈکٹ کا ریفرنس دائر کرے۔ لیکن مجھے لگا کہ میرٹ سے قطع نظر یہ معاملہ چند لوگوں کے ذاتی فوائد کے حصول کا ہے۔ لیکن اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا تھا کہ عدلیہ میں اعلیٰ سطح پر کتنے بڑے پیمانے پر بے چینی پائی جاتی ہے۔ میں نے اس معاملے پر صدرِ پاکستان کو بذات خود اعتماد میں لیا۔ شاہد خاقان کا کہنا ہے کہ میں نے سابق وزیراعظم نواز شریف سے بھی مشورہ کیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہماری حکومت ایسا کوئی ریفرنس دائر کرنے میں فریق نہیں بنے گی۔ چنانچہ معاملہ وہیں ختم ہوگیا۔ لہذا یہ کہنا کہ نوازشریف نے ثاقب نثار کو ہٹانے کے حوالے سے کوئی سازش کی تھی سراسر بے بنیاد بات ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے متنازعہ ترین چیف جسٹس قرار دیے جانے والے میاں ثاقب نثار ایک زمانے میں شریف خاندان کے بہت قریب ہوتے تھے۔ ثاقب کی لاہور ہائی کورٹ میں بطور جج تعیناتی بھی تب کے وزیر اعظم نواز شریف کی سفارش پر ہی ہوئی تھی۔ بعد ازاں وہ چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے تک پہنچ گئے اور پھر ایک وقت آیا جب نواز شریف کی نااہلی کا کیس بھی ان کی عدالت میں لگ گیا۔ ثاقب نثار کے نواز شریف کو پاکستان مسلم لیگ نواز کی صدارت سے ہٹانے اور بطور وزیراعظم نا اہل قرار دیے جانے کے بعد جب صحافیوں نے احتساب عدالت میں نواز شریف سے اس فیصلے کے بارے میں پوچھا تھا تو اُنھوں نے حضرت علی کا قول یہ دہرایا تھا کہ’جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچو’۔
میاں ثاقب نثار کا شمار بھی جسٹس منیر جیسے ان بے ضمیر چیف جسٹس صاحبان میں ہوتا ہے جنہوں نے دل و جان سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی نوکری کی اور ان کا ہر حکم بجا لائے۔ اسی لیے جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فوج کے خفیہ ادارے کو عدالتی معاملات میں مداخلت کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تو بحیثیت چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس ثاقب نثار نے ججز کے خلاف عدالتی تاریخ کی مختصر ترین کارروائی کے بعد شوکت صدیقی کو ان برخاست کر دیا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بعد اگر کسی چیف جسٹس نے از خود نوٹس کا سب سے زیادہ استعمال کرتے ہوئے انتظامی معاملات میں مداخلت کی ہے تو وہ خود جسٹس ثاقب نثار رھے۔ اُنھوں نے بطور چیف جسٹس 43 معاملات پر از خود نوٹس لیے جنکا ان سے کوئی تعلق بھی نہیں بنتا تھا۔ یہ افتخار محمد چوہدری ہی تھے جو اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت کی مخالفت کے باوجود میاں ثاقب نثار کو لاہور ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ میں لے کر آئے تھے جبکہ اس وقت کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف سنیارٹی کے اعتبار سے پہلے نمبر پر تھے۔ بطور چیف جسٹس اپنی اوچھی حرکات کی وجہ سے ثاقب نثار کو میڈیا نے بابا رحمتے کا نام دیا تھا۔ توقع کے عین مطابق ثاقب نثار کا شمار بھی ریٹائرمنٹ کے بعد ان چیف جسٹس صاحبان میں ہوتا ہے جو پاکستانی عدلیہ کے ماتھے پر ایک بدنما داغ قرار دیے جاتے ہیں اور عوامی مقامات پر اکثر لوگون کی نفرت کا نشانہ بنتے ہیں۔

Back to top button