شرلاک ہومز ساڑھے تین کروڑ روپے خرچ کر کے بھی ایک پائی واپس نہ لا سکا

بیرسٹر شہزاد اکبر عرف پاکستانی شرلاک ہومز کی زیر قیادت کام کرنے والا وفاقی حکومت کا ایسیٹ ریکوری یونٹ پچھلے 18 ماہ میں ساڑھے تین کروڑ روپے خرچ کرنے اور 15 غیر ملکی دوروں کے باوجود قوم کے لوٹے گیا 11 ارب ڈالرز ملک واپس لانے میں ناکام رہا ہے۔
اپنے قیام سے اب تک ایسٹ ریکوری یونٹ یعنی اے آر یو 18ماہ میں ساڑھے تین کروڑ روپے خرچ کرچکا ہے۔ جب کہ اے آر یو چیئرمین شہزاد اکبر اور ان کی ٹیم اب تک 15 غیر ملکی دورے کرچکی ہے۔ ایسٹ ریکوری یونٹ کے ایک سینئر افسر کے مطابق اس یونٹ کو قائم ہوئے ابھی صرف 18 ماہ ہوئے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری آئے گی، کوشش ہے کہ جلد سے جلد قوم کی لوٹی گئی 11 ارب ڈالرز کی رقم ملک واپس لائیں۔ تاہم شہزاد اکبر اور ان کی ٹیم کی اب تک کی پرفارمنس سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ قوم کا لوٹا گیا پیسہ بازیاب کرنا حکومت کے لیے تاحال مشکل ہے۔ حالانکہ اس حوالے سے حکومت کا پورا انحصار ایسٹ ریکوری یونٹ پر تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی شرلاک ہومز اور ان کی ٹیم نے قومی خزانے سے ساڑھے تین کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ کرنے اور ایک درجن سے زائد غیر ملکی دورے کرنے کے باوجود جو رقم اب تک بازیاب کی ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ یاد رہے کہ پچھلے 18 ماہ میں شہزاد اکبر ٹی وی پر بیٹھ کر کئی مرتبہ یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ ان کے پاس پاکستان سے بیرون ملک بھجوائے 11 ارب ڈالرز کے ثبوت موجود ہیں اور وہ جلد یہ رقم پاکستان واپس لائیں گے۔
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی شہزاد اکبر کی قیادت میں ایسٹ ریکوری یونٹ قائم کیا تھا۔ قوم کی لوٹی گئی رقم واپس لانے کے لیے شہزاد اکبر اور ان کی ٹیم اب تک جن ممالک کے دورے کر چکی ہے ان میں سوئٹزر لینڈ، لندن، دبئی اور بیجنگ وغیرہ شامل ہیں۔
تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستانی شرلاک ہومز کی تمام تر کوششوں کے باوجود ان کے اپنے دعوے کے مطابق پاکستان سے غیر قانونی طور پر بیرون ممالک بھجوائے گئے 11 ارب ڈالرز ملک واپس لانا تقریبا ناممکن لگ رہا ہے۔ ایف آئی اے اور ایف بی آر کے تعاون کے باوجود مذکورہ یونٹ کوئی خاص پیش رفت نہیں کرسکا ہے۔
ایک سینئر سرکاری عہدیدار کے مطابق آڈیٹر جنرل آفس نے اے آر یو کے اخراجات میں سنگین بےقاعدگیوں کی نشان دہی کی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی یہ رپورٹ ابھی تیاریوں کے مراحل میں ہے اور رواں برس اپریل میں مکمل ہوگی۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق اے آر یو حکام نے ملتان میٹرو پروجیکٹ اور بلٹ ٹرین پروجیکٹ سے متعلق تفصیلات چینی حکام سے طلب کی تھیں لیکن اس میں اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ایف بی آر کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ اے آر یو اور ایف بی آر کے درمیان رابطوں کا فقدان تھا، اے آر یو بیرون ملک پاکستانیوں کی بڑی معلومات حاصل کرنا چاہتا تھا جنہوں نے ایمنسٹی حاصل کی تھی۔ جبکہ یونٹ پاکستان اور بیرون ممالک ماہرین کی خدمات کا بھی خواہاں تھا۔عہدیدار کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایف بی آر اور ایف آئی اے نے اے آر یو کی درخواست پر تقریباً 120 افراد کی معلومات فراہم کیں جنہوں نے ملکی قوانین توڑتے ہوئے بیرون ممالک جائدادیں خریدیں۔ تاہم شہزاد اکبر کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ 11 ارب ڈالرز کی خطیر رقم واپس لانے کے لیے اٹھارہ ماہ کا عرصہ کافی نہیں ہے۔وہ اس حوالے سے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور انشاءاللہ اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button