صحت کارڈ: خیبرپختونخوا کے نجی اسپتالوں نے اربوں روپے کی کمائی کی

ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ خیبرپختونخوا کے نجی اسپتالوں نے صحت کارڈ کے ذریعے علاج کی سہولیات دینے پر اربوں روپے کی کمائی کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ 5 برسوں میں صحت سہولت پروگرام کے تحت مریضوں کے مفت علاج کے ذریعے ہونے والی آمدن سے صحت کے سرکاری اداروں نے 2 ارب جب کہ نجی اسپتالوں نے 8 ارب روپے کمائے۔ حکومت اب تک صوبے میں 4 لاکھ 23 ہزار 525 مریضوں کے مفت علاج پر 10 ارب 50 کروڑ روپے کی رقم خرچ کرچکی ہے۔ اس رقم میں سے نجی اسپتالوں کو 78 فیصد ملا جب کہ سرکاری ملکیت میں چلنے والی صحت کی سہولیات 22 فیصد ہی حاصل کرسکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں صحت سہولت پروگرام کی آمدن میں عملے کا حصہ شامل نہ ہونا کم آمدنی کی بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ‘محکمہ صحت کو سرکاری اسپتالوں کی ناقص کارکردگی پر تشویش ہے اور اس حوالے سے اسٹیئرنگ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں تبادلہ خیال کیا جائے گا’۔ اس پروگرام کے تحت 173 اسپتالوں کو پینل میں شامل کیا گیا، جس میں 46 سرکاری اسپتال اور 127 نجی اسپتال شامل ہیں، اسپتالوں کا انتخاب ماہرین کی اسکروٹنی کے بعد کیا گیا۔ سال 2019 میں صوبائی کابینہ نے سرکاری اسپتالوں کےلیے صحت سہولت کارڈ کے ذریعے اکٹھے ہونے والے فنڈز کی تقسیم کےلیے ‘فنڈز ریٹینشن اینڈ یوٹلائزیشن فارمولے’ کی منظوری دی تھی۔اس فارمولے کا مقصد سرکاری اسپتالوں کے عملے کو حصہ دینا تھا تا کہ وہ نجی اسپتالوں کی طرح مریضوں کی دیکھ بھال کرسکیں اور پروگرام سے ان کی آمدن میں اضافہ ہو۔مذکورہ فارمولے کے تحت 25 فیصد آمدن اسپتال کی دیکھ بھال اور خدمات کی بہتری، 20 فیصد اخراجات اور 30 فیصد انشورنس والے مریضوں کی دیکھ بھال اور علاج کرنے والے ڈاکٹروں، سرجنز اور دیگر ماہرین صحت کےلیے رکھی گئی تھی۔اسی آمدن میں سے 15 فیصد رقم طبی عملے اور نرسز جب کہ 10 فیصد انتظامی اخراجات پر خرچ ہونی تھی۔اس فارمولے کی منظوری سے قبل پوری آمدن حکومتی اکاؤنٹ میں جاتی تھی لیکن صوبائی کابینہ کی منظوری کے بعد یہ رقم اسپتالوں کی سہولیات اور خدمات بہتر بنانے میں خرچ ہونی تھی۔ذرائع کے مطابق محکمہ صحت نے اسپتالوں کو میڈیکل سپرنٹنڈنٹس کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دینے کی بھی ہدایت کی تھی تا کہ فارمولے پر عملدرآمد یقینی بنایا جاسکے لیکن اسپتال اس سے انکار کررہے ہیں۔صحت سہولت پروگرام سال 2015 میں 4 اضلاع میں جرمن بینک کے ایف ڈبلیو کے اشتراک سے متعارف کروایا گیا تھا جو ابتدا میں صوبے کی 3 فیصد آبادی کےلیے تھا۔بعدازاں سال 2016 میں اسے 51 فیصد جب کہ 2017 میں 69 فیصد آبادی کےلیے توسیع دے دی گئی تھی اور 2020 نومبر میں پورے صوبے کی آبادی کےلیے بڑھا دیا گیا تھا۔اب اس پروگرام میں 72 لاکھ خاندان شامل ہیں، جو ملک کے500 اسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت حاصل کرسکتے ہیں۔صحت سہولت پروگرام ہر خاندان کو سالانہ 10 لاکھ روپے تک کی صحت کی سہولت فراہم کرتا ہے اور یہ رقم استعمال ہونے کی صورت میں انہیں دیا گیا کارڈ ریچارج کیا جاتا ہے۔یہی اسکیم پنجاب، بلوچستان،سندھ کے کچھ اضلاع، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں دہرائی گئی۔حکام کا کہنا تھا کہ حکومت کو سرکاری اسپتالوں کی نقص کارکردگی پر تشویش ہے جہاں ملازمین تنخواہیں حاصل کررہے ہیں لیکن صحت سہولت پروگرام کے مریضوں کا علاج کرنے کے قابل نہیں۔ نجی اسپتالوں میں مریضوں کو فوری داخل کرلیا جاتا ہے لیکن سرکاری اسپتالوں میں انہیں طویل عرصے تک انتظار کروایا جاتا ہے اور حصہ نہ ملنے کی وجہ سے عملہ کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔
قبل ازیں خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے دعوی کیا تھا کہ سال 2016 میں شروع کیے جانے والے صحت کارڈ پلس پروگرام کا دائرہ صوبے کی پوری آبادی تک بڑھا دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ صحت کارڈ پلس پروگرام کے تحت اب ملک کے نجی و سرکاری اسپتالوں میں کئی بیماریوں کا علاج جاری ہے جن میں امراض قلب، شریان، حادثات کی صورت میں علاج، ذیابیطس کی پیچیدگیوں، گردے کی پیوندکاری، مصنوعی بازو یا ٹانگ لگانا، کینسر، گردے اور مثانے کی بیماریاں، ڈائلیسز، چھاتی کے سرطان کی اسکریننگ، نیورو سرجری اور ای این ٹی سمیت کئی دیگر بیماریوں کا علاج شامل ہے۔ پروگرام ڈائریکٹر صحت کارڈ پلس ڈاکٹر ریاض تنولی کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا عوام کو بیشتر بڑی بیماریوں کا بلامعاوضہ علاج کی سہولیات فراہم کرنے والا پہلا صوبہ بن گیا ہے جہاں صحت کارڈ پلس پروگرام کے تحت صوبے کے 4 کروڑ افراد پر مشتمل 67 لاکھ خاندانوں کو مفت علاج کی سہولت میسر ہوں گی۔ وزیر صحت خیبر پختونخوا تیمور سیلم جھگڑا نے کہا کہ صحت کارڈ پلس پروگرام کے تحت ایک خاندان کے تمام افراد کےلیے سالانہ 10 لاکھ روپے مقرر کیے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ پروگرام کے تحت اب تک 3 لاکھ مریضوں کا علاج کیا جا چکا ہے جس پر مجموعی طور پر 9 ارب روپے کی خطیر رقم خرچ ہو چکی ہے۔