میری کہانی !

تحریر : عطا ء الحق قاسمی
بشکریہ: روزنامہ جنگ
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ زندگی میں حرام مال کمانے کے بے شمار مواقع ملے لیکن وہ وجوہ اس رستے پر چلنے میں مانع رہیں ،ایک تو ابا جی کی تربیت اور دوسرے اس حوالے سے انکی پوری زندگی کی عملی مثال۔ اس کی دوسری وجہ اپنی خودداری ،میں سوچتا تھا کہ میں جو اس کی نظر میں ایک باوقار اور خوددار انسان ہوں اس کی آفر قبول کرنے کےبعد اسکی ہی نہیں اپنی نظروںسے بھی گر جاؤنگا مجھ میں اور طوائف میں کیا فرق رہ جائے گا؟ میں اس حوالے سے زیادہ مثالیں نہیں دوں گا ۔بہرحال ایک سن لیں میرا ایک مزاح نگار دوست جس کے حوالے سے بہت عرصے کے بعد پتہ چلا کہ اس کا تعلق ایک ’’ایجنسی‘‘ سے ہے ایک دن جب وہ میرے پاس آئے اور کہا آپ ایک روزنامہ کیوں شروع نہیں کرتے یہ سن کر پہلے تو میری ہنسی نکل گئی اور پھر کہا برادرم اسکےلئے ایک بڑی عمارت چاہئے پرنٹنگ پریس چاہئے پیشہ ور صحافی چاہئیں اور یہ کم از کم پندرہ بیس کروڑ روپے بنتے ہیں دیگر ماہانہ اخراجات اس کے علاوہ ہیں یہ سن کر انہوں نے کہا رقم کی آپ پروا نہ کریں یہ سب کچھ ہمارے ذمے ہے ہمیں اس کام کے لئے ایک محب وطن اور اس شعبے سے وابستہ شخص کی تلاش تھی اور وہ شخصیت آپ ہیں ۔میں نے اپنے اس دوست کا شکریہ ادا کیا اور کہا الحمدللہ میں محب وطن ہوں ممکن ہے میری اور آپ کے ادارے کی حب الوطنی میں اس قسم کا فرق ہو جیسے میرے مختلف دوستوں کا ہے ہم جب بیٹھتے ہیںتو اس طرح کے اختلافات پر گفتگو ہوتی ہے اور ہر ایک کی رائے مختلف نظر آتی ہے میرے دوست نے کہا آپ ٹھیک کہتے ہیں مگر آپ اس اخبار کی آزادانہ پالیسی رکھ سکتے ہیں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا ،میں نے عرض کی برادر میں آپ کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے مجھے اتنی فراخدالانہ آفر کی مگر ایسا ہو نہیں سکتا کہ وہ شخص آپ کی اس رائے سے اختلاف کرسکے جسے آپ نے بیٹھے بٹھائے کچھ سے کچھ بنا دیا ہو۔ میرے اس دوست نے کافی اصرارکیا اور یقین دہانیاں کرائیں مگر میں نے پیارسے اسکے گال تھپتھپاتے ہوئے کہا نہیں یار، بالآخر اس نے کہا ٹھیک ہے مگر آپ میرے ساتھ ان جنرل صاحب کے پاس چلیں جنہوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا تھا آپ صرف ان کے سامنے معذرت کر دیں تاکہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ میں نے اپنی ڈیوٹی صحیح طورپر انجام نہیں دی میں نے اس حوالے سے بھی معذرت کی پھر دوست سے کہا آپ سے میری امید ہے دوستی میں فرق نہیں آئےگا ۔اس طرح کی دوسری آفر بہت کم تر تھی یہ آفر ان دنوں ہوئی جب میں پی ٹی وی کا چیئرمین تھا ایک صاحب جن سے میرے دیرینہ مراسم تھے ایک دن میرے دفتر آئے میں ان کے احترام میں اپنی کرسی سے اٹھ کر سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیااور ساتھ ہی نائب قاصد کو چائے کا آرڈر دیا کچھ دیر بعد انہوں نے اپنے برابر میں رکھا بریف کیس اٹھا کر میرے سامنے رکھ دیا اور کہا اس میں تیس لاکھ روپے ہیں اور یہ پہلی قسط ہے یہ سن کر مجھے شدید تکلیف ہوئی میں نے ان سے کہا آپ نے یہ اچھا نہیں کیا اگر آپ نے چائے ختم کرلی ہےتو اس بریف کیس سمیت تشریف لے جاسکتے ہیں۔اسی طرح کے زندگی میں بےشمار مواقع آئے، ان میںسے صرف ایک آپ کو سناتا ہوں جو بہت مزاحیہ قسم کا ہے، ایک وزیر صاحب میرے گھر تشریف لائے مٹھائی کا ڈبہ انہوں نے میرے گھریلو معاون کو تھمایا اور پھر سیاسی گفتگو شروع کر دی جس سے مجھے کبھی دلچسپی نہیں رہی تاہم اپنی اس نالائقی کو ’’راز‘‘ ہی رکھنے کیلئے درمیان میں ایک آدھ جملہ کہہ دیتا اس جملے کو صرف بونگی قرار دیا جاسکتا ہے مگروہ میرے ہر اس طرح کے ہر جملے سے سوفیصد اتفاق ظاہر کرتے رہے اس حوالے سے میں نے محسوس کیا کہ وہ بے چین سے ہیں انکی یہ بے چینی اس وقت ختم ہوئی جب انہوں نے جیب سے ایک بہت پھولا ہوا لفافہ نکالا اور اس لفافے کے موٹاپے کی وجہ وہ کرنسی نوٹ تھے جو اس میں ٹھنسےہوئے تھے انہوںنے یہ لفافہ میرے سپرد کیا اور کہا قاسمی صاحب یہ معمولی سی رقم ہے آپ اپنے ہاتھوں سے اسے مستحقین میں تقسیم کر دیں میں نے عرض کی کہ حضورؐ کا فرمان ہے کہ اس طرح کی نیکی اپنے ہاتھ سے کرنی چا ہئے، تھوڑے سے شرمسار ہوئے مگر ہتھیار نہیں ڈالے فرمایا آپ ان بزرگوں کی اولاد ہیں جو ہمیشہ سے قابل احترام رہے ہیں اس لئے مناسب سمجھا کہ نیکی کا کام ایک نیک شخص ہی کے ہاتھوں ہونا چاہئے اپنے بارے میں ’’نیک شخص‘‘ کے الفاظ سن کر میں نے مشکل سے اپنی ہنسی روکی اور ’’جواب آں غزل‘‘ کے طور پر کہا جناب میںتو ایک گنہگار شخص ہوں نیکیوں کی دھوم تو آپ کی ہے لہٰذا میں نے لفافہ ان کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا کہ یہ نیکی بھی آپ اپنے ہاتھوں انجام دیں۔اگلی بات پر میں ان کی ذہانت کا قائل ہو گیا وہ ایسے کہ جب وہ آئے تو میں نے اپنے ادبی مجلے کا تازہ شمارہ ان کی نذر کیا تھا انہوں نے اس کی ورق گردانی کی اور مجھے مخاطب کیا ماشااللہ قاسمی صاحب اس وقت جب کہ سب لوگ مال بنانے میںلگے ہوئے ہیں آپ اکیلے ادب کی خدمت کر رہے ہیں اس کام میں مجھے بھی شریک کرلیں یہ لفافہ رکھیں اور سب ادیبوں کو یہ قابل قدر مجلہ ارسال کر دیں میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا جناب یہ پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ میں نے بھی کاپیاں ٹمپل روڈ کی ایک بک شاپ پر رکھوا دی ہیں آپ ان سے جتنےچاہیں پرچے خرید لیں اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
نئے ریاستی اہداف!
رشوت کی ایک نہیں کئی قسمیں ہوتی ہیں فلم انڈسٹری میں اہم کردار اور ٹی وی چینلز میں پیک ٹائم کے حصو ل کیلئے ایسے غیر مستحق خواتین و حضرات اپنے کسی نمائندے یا براہ راست جسمانی خواہشات کی تکمیل کی آفر کرتے ہیں مگر ان شعبوں میں اپنا مقام صرف ٹیلنٹ والے لوگ بنا پاتے ہیں باقی ساری عمر رینگنے اور اپنے ضمیرسے جھگڑنے میں گزار دیتےہیں مجھے ایک صوبے کے گورنر کا فون آیا کہ آپ ٹیلنٹ رکھنے والی لڑکیوں کو ان کا صحیح مقام کیوں نہیں دیتے مجھے یہ سن کر ہنسی آ گئی اور کہا حضور میں چیئرمین ہوں میرے انڈر یہ شعبہ ہی نہیں ہے، ویسے ایک صوبے کا گورنر ہوتے ہوئے اسلام آباد کی لڑکیوں کی اتنی فکر کیوں ہے اور سچ پوچھیں تو ان کی یہ فکر اس ویڈیو لیک سے سامنے آگئی تھی جس سے بہت شور مچا تھا ،آپ اس کردار کا اندازہ لگائیں کہ ایک صوبے کا گورنر ٹیلی فون پر یہ باتیں کر رہا ہے جو جانتا ہے کہ سب کچھ ریکارڈ ہوتا ہے ۔