اوپن اسکائی پالیسی: ایک سال میں ملک کو 107 ارب کا نقصان ہوا

وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے سینیٹ میں سوال و جواب کے سیشن کے دوران بتایا کہ ‘پی آئی کا مالی بحران کا آغاز 1990 میں اپنائی گئی اوپن اسکائی پالیسی اور متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ریاستوں کو گرانٹس دینے سے ہوا، 2017 میں اوپن اسکائیز، خلیجی ممالک بشمول متحدہ عرب امارات، ترکی اور سری لنکا کے لبرل ٹریفک حقوق دینے کی وجہ سے قومی خزانے کو تقریباً 1 کھرب 7 ارب روپے کا نقصان ہوا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ان تمام ایئرلائنز کے مسافروں کا پاکستانی ایئرلائنز کو تھا جس کی کمائی ملک کی معیشت میں حصہ ڈالتیں’۔ انہوں نے کہا کہ ‘حکام نے 1992 میں اوپن اسکائیز پالیسی کے تحت بننے والے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی کے آغازکے بعد اس پالیسی کو اپنایا تھا۔ وزیر نے کہا کہ دو ممالک کے درمیان اوپن اسکائی پالیسی کا مقصد صرف تجارتی باہمی اور نامیاتی (پوائنٹ ٹو پوائنٹ) مارکیٹ کی نمو پر مبنی ہونا چاہئے جیسا کہ قومی ہوا بازی کی پالیسی 2019 میں کیا گیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دبئی، ابوظبی، شارجہ اور راس الخیمہ جیسی شہری ریاستوں سے اوپن اسکائیز نے پاکستان کی ایئر لائنز کی تجارتی عملداری کو نقصان پہنچایا ہے اور قومی خزانے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اوپن اسکائی پالیسی زیادہ تر یا تو ان ممالک کےلیے اختیار کی گئی تھی جو غیر معمولی مقامی ٹریفک رکھتے تھے یا شہری ریاستوں کے لیے جن کا پاس کوئی مقامی نیٹ ورک نہیں تھا جیسے متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور سنگاپور۔
انہوں نے کہا کہ ‘اپنی ایئر لائنز کو بچانے اور اپنے ممالک کی خوش حالی کےلیے انہوں نے گنجان آباد ممالک سے لبرل حقوق طلب کیے، یہ ممالک پاکستان جیسے ممالک میں متعدد شہروں کےلئے غیر محدود ٹریفک کے حقوق کے خواہاں ہیں جب کہ وہ اپنے علاقے میں صرف ایک پوائنٹ پیش کرتے ہیں جیسے امارات ایئر لائنز کو پاکستان کے 11 شہروں تک چلانے کی اجازت ہے جب کہ پاکستان کی ایئر لائنز صرف دبئی میں ایک مقام پر کام کرسکتی ہیں’۔
غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ ‘متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک کی ایئر لائنز نے برطانیہ، یورپ، امریکا اور کینیڈا کےلیے اپنے مراکز کے ذریعہ چھٹی آزاد ٹریفک کا سہارا لیا جو دوسری صورت میں پاکستانی ایئر لائنز یا اس ملک کی ایئر لائنز کا حق تھا جہاں مسافر سفر کررہا تھا، ٹریفک کے حقوق کے لبرل گرانٹ کو اپنانے کے ساتھ دیگر ایئر لائنز نے پی آئی اے کے ٹریفک شیئر پر ڈاکہ ڈالنا شروع کردیا’۔
ایک سوال کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ ‘قومی پرواز کا خسارہ 2018 میں 32 ارب سے کم ہوکر 2019 میں 11 ارب ہو گیا ہے اور یہ بہتر حکمرانی کے ذریعہ ہی ممکن ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے طیاروں کے حصول اور زمینی منصوبوں کو آپریشنل بنانے سے بھی ریونیو میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کو درپیش سخت مالی حالات کے باوجود حکومت اسے خود انحصار کرنے کی خواہاں ہے، ‘کارپوریشن کے مختلف ذرائع اور طریقوں سے اپنے نقصانات/خسارے کو کم کرکے مالی حالت کو بہتر بنانے کی کوششیں جاری ہیں، مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود، پی آئی اے سی ایل نقصانات کو کم کرنے کے اپنے ہدف کے تحت اپنی کارکردگی بہتر بنانے میں کامیاب رہی ہے’۔
وزیر نے کہا کہ ‘پی آئی اے کے نقصانات کی سب سے بڑی وجہ گزشتہ حکومتوں کے وراثت میں ملنے والے قرض اور بڑھتے ہوئے مارک اپس وغیرہ ہیں، مزید یہ کہ ایندھن کی قیمتوں میں نمایاں اضافے اور کرنسی کی قدر میں کمی نے بھی نقصانات میں حصہ ڈالا ہے’۔ انہوں نے کہا کہ نقصانات میں ہونے والی کمی کی وجہ ریونیو میں اضافے اور اخراجات کو کم کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘لاگت میں کٹوتی اور سادگی اپنانے کے اقدامات اور غیر ضروری انتظامی اخراجات میں کمی، ضائع ہونے کے کاموں میں نظم و ضبط اور احتساب، خسارے میں آنے والے راستوں اور دیگر منصوبوں کو کم کرنے، پی آئی اے کے لیے موزوں آپریشنل سہولیات کی تبدیلی پر توجہ دی جارہی ہے۔
نتیجتاً انہوں نے کہا کہ ‘اس کے نتیجے میں، تمام کارکردگی کے اشارے جیسے ریونیو، سیٹ فیکٹر، پیداوار اور ہر دستیاب سیٹ پر آمدنی پچھلے سالوں کے مقابلہ میں زبردست اضافہ ہوا ہے جب کہ آپریٹنگ اور انتظامی اخراجات میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے’۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button