بنگلہ دیش کی پاکستان سے زیادہ ترقی کا کیا راز ہے؟


پچاس برس قبل 16 دسمبر 1971 کو پاکستان سے آزادی حاصل کرنے والا بنگلہ دیش آج اقتصادی میدان سمیت کئی شعبوں میں پاکستان سے کہیں آگے نکل چکا ہے جسکی اہم ترین وجوہات میں فوج کی سیاست میں عدم مداخلت، مذہبی انتہا پسندی پر کنٹرول اور اربوں ڈالرز کی بیرون ملک ایکسپورٹس ہیں۔
یہ امر بھی حیران کن ہے کہ بنگلہ دیش اب اس قابل ہو چکا ہے کہ وہ دوسرے ممالک کو قرضے دے سکے۔ یاد رہے کہ حال ہی میں سری لنکا کو 20کروڑ ڈالر قرضہ دے کر بنگلہ دیش نے خطے کے دیگر ممالک کے لیے الارم بجا دیا ہے کہ وہ جلد ایک ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ملک بن جائے گا۔مبصرین کے خیال میں اس وقت بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کی ایک سیکولر ریاست کے طور پر ایک تیزی سی ترقی کرتا ملک بن چکا ہے جہاں سیاسی استحکام بھی نظر آرہا ہے۔ سری لنکا کو زرمبادلہ کے بحران سے باہر نکالنے میں مدد دینے والا ملک وہی بنگلہ دیش ہے جس کے بارے میں اس کی پیدائش کے وقت امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے کہاتھا کہ یہ ملک خیرات مانگنے والے کی تھالی ہے۔
معاشی ماہرین کے نزدیک بنگلہ دیش کی معیشت کی مضبوطی کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اس نے نمائشی ترقی کے لیے لمبے چوڑے بیرونی قرضے نہیں لیے۔ اس کے برعکس پاکستان نے موٹرویز‘ میٹرو ٹرانسپورٹ اور بڑے بڑے ایئرپورٹ ٹرمینل بنانے کے لیے دل کھول کر قرضے لیے ہوئے ہیں۔ ماہرین کے خیال میں پاکستان کی ترقی صرف لوکل انڈسٹری کو پروموٹ کرنے سے بہتر ہو سکتی ہے، بنگلہ دیش نے بھی اسی طرز پر اپنی معیشت کو بہتر بنایا ہے۔ 1990 تک بنگلہ دیش میں ایسے لگ رہا تھا کہ یہ ملک شاید ہی ترقی کرے مگر اس کے بعد اس نے صنعتی اور زرعی شعبے میں کماحقہ ترقی کی طرف قدم بڑھائے۔ یاد رہے کہ 1971 میں ایک آزاد ریاست بننے سے پہلے بنگلہ دیش اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصہ تھا، جہاں اب اسلامائزیشن کی پالیسی معاشرے کی فرقہ وارانہ تقسیم کا ایک بڑا سبب بن چکی ہے۔ تاہم دونوں ممالک جس تیسرے ملک بھارت سے الگ ہوئے تھے، وہ سکیولرازم سے ہٹ کر اب ‘ہندوتوا’ کی جانب بڑھ رہا ہے، اور وہاں ایک انتہائی رائٹ ونگ سخت گیر حکومت کے نیچے ایک انتہا پسند معاشرہ فروغ پا رہا ہے۔
پیو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ایک حالیہ تحقیق کی مطابق پاکستان میں 94 فیصد افراد کے لیے ان کا مذہب بہت ذیادہ اہم ہے۔ یوں پاکستان دنیا کے سب سے زیاد مذہبی ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش میں یہ شرح 81 فیصد اور انڈیا میں 80 فیصد ہے۔
بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کی سب سے جوان ریاست ہے، لیکن اِس کی فی کس مجموعی قومی پیداوار پاکستان سے کئی فیصد زیادہ ہے۔ تاریخ دان، علومِ سیاسیات اور سماجیات کے ماہرین کے سامنے یہی بڑا سوال ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی تاریخ ایک جیسی ہے لیکن ان کے معاشی، سماجی اور سیاسی حالات ایک دوسرے سے کہیں مختلف ہیں، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بنگلہ پاکستان سے کہیں آگے نکل چکا ہے۔
دی گلوبل اکانومی کے 200 ممالک کے سیاسی استحکام کے انڈیکس کے مطابق اس معاملے میں بنگلہ دیش کا نمبر 161واں اور پاکستان کا 184واں ہے۔ گلوبل اکانومی کے مطابق غیر مساوی ترقی کے انڈیکس میں بنگلہ دیش کا نمبر 71واں بنتا ہے اور پاکستان کا 82واں ہے۔ یہ انڈیکس معاشرے میں عدم مساوات ظاہر کرتا ہے۔ ورلڈ جسٹس فورم، ایک بین الاقوامی غیر سرکاری ادارہ، کے رُول آف لاء انڈیکس میں پاکستان کو 130ویں نمبر پر شمار کیا گیا ہے۔ جبکہ اسی انڈیکس میں بنگلہ دیش کی درجہ بندی 124 ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں بنگلہ دیش کی درجہ بندی میں بہتری آئی ہے جبکہ پاکستان کی درجہ بندی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ:شہباز شریف ، حمزہ شہباز مرکزی ملزم نامزد
معاشی صورتحال کی بات کی جائے تو بنگلہ دیش کی سنہ 1971 میں قومی مجموعی پیداوار 8.7 ارب ڈالر تھی جو پچھلے برس سنہ 2020 تک 324 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ بنگلہ دیش کا جی ڈی پی سنہ 2019 میں 302 ارب ڈالر تھا۔ اور سنہ 2020 میں فی کس آمدن 1968 ڈالر تھی، یعنی پاکستان سے کہیں زیادہ۔ تاہم پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار سنہ 1971 میں 10.6 ارب ڈالر تھی جو کہ پچھلے برس تک 263 ارب ڈالر تھی یعنی سالانہ اوسط شرح نمو 6.68 فیصد تھی اور 49 برسوں میں 23 گنا اضافہ ہوا۔ 2019 میں پاکستان کے جی ڈی پی کی مالیت 288 ارب ڈالر تھی جو کہ سنہ 2018 میں 314 ارب ڈالر تھی۔ پچھلے برس تک پاکستان میں فی کسی آمدن 1193 ڈالر رہی جو بنگلہ دیش کے مقابلے میں کم وبیش 900 ڈالر کم ہے۔

Back to top button