الیکشن کے بعد سیاسی ماحول مزید زہریلا کیوں ہو گیا؟

سینئر صحافی ایئر سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ حالیہ الیکشن میں لوگوں نے جوش و خروش سے حصہ لیا لیکن نہ کسی نے سیاسی جماعتوں کے منشور پر توجہ دی نہ کسی جماعت کی ماضی کی کارکردگی پر بحث مباحثہ ہوا اورنہ ہی مستقبل کے منصوبوں پر کوئی لے دے ہوئی، ایک طرف تحریک انصاف کے جذباتی ووٹر نے اپنے غصے کا اظہار کیا تو دوسری طرف نون کے ووٹر اور سپورٹر کا انداز بھی جذباتی ہی تھا نہ سیاست میں منطقی انداز ہے نہ معاشرت اور نہ معیشت میں۔ توقع تھی کہ انتخابات کے بعد ماحول بدلے گا مگر فضا اور بھی زہر آلود ہوتی جا رہی ہے. کوئی بھی قومی معاملہ سلجھ نہیں رہا بلکہ ہمہ جہت الجھاؤ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اپنے ایک کالم میں سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ آپ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں دیکھیں سب سے زیادہ رش کھانوں کی دکانوں پر ہے، لائبریریاں اور میوزیم بھاں بھاں کر رہے ہیں ۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی پہچان نہیں، یہاں امید مرتی جا رہی ہے ریاست کے حکمران اور سیاست دان امید کو جگائے رکھتے ہیں لیکن یہاں کسی کو مستقبل کی فکر ہی نہیں۔ کوئی کسی حقیقت پسند سے یہ سوال پوچھے کہ پانچ سال بعد تضادستان کہاں کھڑا ہوگا تو وہ حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے فیض احمد فیض کا یہ فقرہ دہرائے گا کہ ڈر ہے یہاں کےحالات اسی طرح کے ہی رہیں گے اور اگر کسی قنوطی سے یہ سوال پوچھا جائے تو جھٹ جواب دے گا، یہاں بچوں کا کوئی مستقبل نہیں، یہاں کی معیشت کے ٹھیک ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی گروپ جو اب ملٹی نیشنل ہے، اس کے حالات یہ ہیں کہ اسکے سربراہ کے 4 پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں میں سے کوئی ایک بھی اس ملک میں رہنے کو تیار نہیں، یہ خاندان یہاں کی اشرافیہ سے تعلق رکھتا ہے، مال و دولت، عزت، شہرت اور ساکھ سب ان کو حاصل ہے لیکن سارے بچے امریکہ اور یورپ میں مقیم ہیں اور ان میں سے کوئی واپس آکر اتنا بڑا کاروبار سنبھالنے کو بھی تیار نہیں۔
اسی طرح کے اور صنعتی خاندان جس کی ایک زمانے میں سب سے بڑی ٹیکسٹائل فیکٹری ہوا کرتی تھی وہ سارا خاندان بیرون ملک شفٹ ہو چکا ہے، کاروبار یہاں چل رہے ہیں مگر وہ پاکستان میں رہنے کو تیار نہیں۔ کتنے ہی خاندانوں کو ہم جانتے ہیں جو دبئی اور بیرون ملک بیٹھ کر کاروبار چلاتے ہیں، لاکھوں افراد بیرون ملک جاکر مقیم ہوگئے۔ جو بچے باہر پڑھنے جا رہے ہیں ان کیلئے یہاں مواقع نہیں اس لئے وہ وہیں کے ہو جاتے ہیں۔ اور تو اور ملک ریاض، جو حکمران اشرافیہ کو ڈیل کرنے کا فن بھی جانتے ہیں، بھی کئی سال سے بیرون ملک مقیم ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کیوں ہوا، کیوں ہو رہا ہے اور اسے روکا نہ گیا تو پاکستان میں رہ کیا جائےگا؟ سہیل وڑائچ کے مطابق آج کے پاکستان کی سڑکوں اور پارلیمان میں ہونے والی گفتگو کیا کسی تماشے سے کم ہے؟ جس معاشرے میں عورتوں اور اقلیتوں کو گھیر گھار کر نشانہ بنایا جاتا ہو وہ زوال پذیر معاشرہ ہی ہوتا ہے۔ یہاں اب سچ لکھیں تو ایک جماعت گالیوں پر اتر آتی ہے، دوسری جماعت کہتی ہے یہ فلاں کا حامی بن گیا ہے اور طاقتور سمجھتے ہیں کہ یہ پٹڑی سے اتر رہا ہےاسے دوبارہ پٹڑی پر چڑھایا جائے، جب معاشرہ اس طرح کی تقسیم کا شکار ہو جائے تو یہ زوال کی طرف بڑھنے کی نشانی ہی ہوتی ہے۔ آج کی جدید دنیا میں ریاست کو مثبت رخ دینے کی سب سے زیادہ ذمہ داری سیاست دانوں کی ہوتی ہے پاکستانی عوام نے ووٹ دیکر سیاست دانوں کو اختیار دے دیا ہے کہ ریاست اور عوام کی تقدیر کا فیصلہ وہ کریں، اب اگر یہ سیاست اناپرستی اور اقتدار پرستی کے پنجروں میں بند رہی تو یہ قوم بھی اسیر ہی رہے گی، اسے کبھی آزادی نصیب نہیں ہوگی، کاش کوئی ایک فریق صرف پانچ سال کے اقتدار کی قربانی دیدے تو معاملات مثبت رخ اختیار کر سکتےہیں مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ برصغیر اور خاص طور پر اس کے شمالی خطے کے باشندوں میں ایک جنیاتی خرابی ہے کہ ہم اپنے لڑائی جھگڑے، فساد اور مسلۓ حل نہیں کر پاتے، ہمارے ہاں بہن بھائیوں میں اختلاف پیدا ہو جائے تو وہ برسوں چلتا ہے۔ عدالتوں میں 70سے 80 فیصد مقدمات قریبی رشتہ داروں کے درمیان ہوتے ہیں۔ صوبوں، شہروں، ذاتوں، برادریوں، شوہروں اور بیویوں کے درمیان تضادات کے حل کا ہم آج تک کوئی طریقہ دریافت نہیں کرسکے، ساس اور بہو کا معاملہ آج بھی ہر خاندان کا مسئلہ ہے لیکن اس مسئلے کا کوئی سماجی اور معاشرتی حل ہم نہیں نکال سکے۔ آج ہم جس موڑ پر آگئے ہیں اس کے بعد گہری کھائی ہے۔ اگر ہم جذباتیت پر ہی گامزن رہے تو پھر کوئی ہمیں گرنے سے روک نہیں سکے گا۔
اگر ہم آج بھی منطقی انداز میں سیاست اور معاشرت کے بڑے بڑے مسائل کا حل نکالنے میں یکسو ہو جائیں تو ہمارا زوال رک جائے گا اور ہوسکتا ہے اس کے بعد ہمارا عروج کی طرف سفر شروع ہو جائے۔