اگلی حکومت اتحادی، نواز وزیراعظم، زرداری صدر ہونگے
سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے گی۔ اپوزیشن میں آنے کے لیے جتنی سیٹیں درکار ہوتی ہیں وہ پی ٹی آئی آرام سے جیت لے گی۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو حکومتی بنچوں پر بٹھایا جائے گا اور دونوں پارٹیوں کی مخلوط حکومت ہو گی۔ اس وقت تک تو یہی منصوبہ ہے لیکن کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ہو سکتا ہے آگے جا کر ن لیگ یا مقتدر حلقوں کا پلان بدل جائے۔ سہیل وڑائچ کے مطابق 2024 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان میں پی ڈی ایم جیسی حکومت بنے گی۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو ایک مرتبہ پھر مخلوط حکومت میں اکٹھا بٹھایا جائے گا۔ نواز شریف وزیر اعظم جبکہ آصف زرداری صدر ہوں گے۔ اگرچہ اس کا امکان کم ہے لیکن اگر الیکشن ڈے پر پی ٹی آئی کا دل شکستہ ووٹر پولنگ سٹیشن تک آ گیا تو انتخابات کے نتائج کچھ اور بھی آ سکتے ہیں۔
دنیا نیوز کے پروگرام میں انٹرویو دیتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان، جنوبی پنجاب اور دیگر علاقوں سے جس طرح نمایاں سیاسی شخصیات ن لیگ میں شامل ہو رہی ہیں، اس سے یہی نظر آ رہا ہے کہ انتخابات میں ن لیگ آسانی سے اکثریت حاصل کر لے گی۔ نواز شریف وزیر اعظم بنیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اگر 60 سے 65 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو گئی اور ن لیگ کے ساتھ اتحاد میں شامل ہوئی تو آصف زرداری ملک کے صدر ہوں گے۔ لیکن اگر پولنگ ڈے پر پی ٹی آئی کا دل شکستہ ووٹر باہر نکل آیا اور اس دن کوئی ری ایکشن ہو گیا تو اس صورت حال میں نتیجہ کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔ بظاہر زیادہ امکان یہی نظر آتا ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹر ڈی-مورالائز ہی رہے گا کیونکہ اس کو اپنے حلقے میں پی ٹی آئی کا کوئی مضبوط اور بااثر لیڈر میسر ہی نہیں ہو گا۔
سہیل وڑائچ کا لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ساری پارٹیوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے لیکن ابھی تک پی ٹی آئی کو کارنر میٹنگ بھی کرنے کا موقع نہیں ملا۔ امکان ہے کہ آئندہ دنوں میں الیکٹ ایبلز اور دیگر مضبوط انتخابی امیدواروں کو بھی پی ٹی آئی میں نہیں رہنے دیا جائے گا۔ بچے کھچے لوگ ضرور پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن لڑیں گے۔ ویسے تو لوگ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کھمبا بھی کھڑا کر دے تب بھی عوام انہیں ووٹ دیں گے لیکن ایسا مشکل نظر آ رہا ہے۔ دعوے کے مطابق شہری حلقوں میں پی ٹی آئی کھمبا بھی کھڑا کر دے تو ان کے جیتنے کا پھر بھی کچھ امکان ہے لیکن شہروں سے باہر دھڑے ہوتے ہیں اور وہاں الیکٹ ایبلز ہی جیت سکتے ہیں۔
سہیل وڑائچ کے مطابق پی ٹی آئی کا کسی بھی ملک سے گرمجوشی والا تعلق نہیں تھا۔ ملائشیا اور وہاں کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد سے کچھ حد تک تھا۔ طیب اردگان سے تھا لیکن ان کا شریف فیملی سے بھی گہرا تعلق ہے۔ سعودی عرب اور ابوظہبی سے عمران خان کے تعلقات خراب ہو گئے تھے۔ امریکہ کے بارے میں تو علی الاعلان سائفر لہراتے ہوئے انہوں نے بہت کچھ کہا تھا۔ لہٰذا بظاہر ایسا کوئی ملک نظر نہیں آتا جس کو عمران خان کے ساتھ خاص ہمدردی ہو۔ ایک سفارتی حلقے میں یہ بات ہو رہی تھی کہ پاکستان میں انتخابات ہونے چاہئیں۔ کسی نے سوال کیا، شفاف انتخابات یا انتخابات؟ تو جواب آیا کہ انتخابات ہونے چاہئیں، خواہ وہ شفاف ہوں یا نہ ہوں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے امکان پر سہیل وڑائچ نے کہا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کہتی تھیں کہ انہوں نے 1985 کے الیکشن کا بائیکاٹ کر کے غلطی کی تھی، اس کے بعد انہوں نے کبھی الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ انہیں ایک بار صرف 12 سیٹیں ملی تھیں، اس کے باوجود وہ قومی اسمبلی میں بیٹھی تھیں۔ اسی طرح دو بار نواز شریف کے بھی راستے مسدود کیے گئے لیکن پھر بھی ان کی جماعت قومی اسمبلی میں گئی۔ اس تجربے سے پی ٹی آئی کو کچھ سیکھنا چاہئیے۔ اس سے نظام متحرک رہتا ہے، مارشل لاء کا دروازہ بند رہتا ہے اور بالآخر آپ کی باری بھی آ جاتی ہے۔ آپ اپوزیشن میں ہوں تب بھی بات چیت کا عمل جاری رہتا ہے۔
سہیل وڑائچ نے کہا کہ ہمارے ملک میں سیاسی مفاد کے لیے اکثر اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔ حالیہ صورت حال میں چارٹر آف ڈیموکریسی کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ اخلاقی طور پر تو یہ ہونا چاہئیے کہ مفاد نہ بھی ہو تب بھی اصولوں پر قائم رہنا چاہئیے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں مفاد کو اصولوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔
ن لیگ کے بیانیے میں تبدیلی ‘سمارٹ موو’ ہے؟ اس سوال کے جواب میں سہیل وڑائچ نے کہا کہ جب عمران خان اقتدار میں تھے تو نواز شریف کو اس سے بہت تکلیف تھی۔ اس دوران وہ اپنے مہرے ترتیب دے رہے تھے۔ جنرل باجوہ کو توسیع دینا اسٹیبلشمنٹ سے مصالحت کے لیے ایک قدم تھا۔ جب شہباز شریف کو وزیر اعظم بنایا گیا تو یہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ‘فیورٹ’ کو سپورٹ کرنے کا ایک اقدام تھا۔ بالآخر تمام کوششیں رنگ لائیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ن لیگ کی صلح ہو گئی لیکن اس میں مفاد جیت گیا اور اصول ہار گئے۔ سوال تو یہ بنتا ہے کہ نواز شریف مفاد کے بعد دوبارہ اصول کو اپنائیں گے یا نہیں۔ اگر ایسا ہوا تو شاید وہی منظر پھر سے دیکھنا پڑے جو ہم پہلے بھی تین مرتبہ دیکھ چکے ہیں لیکن اور راستے بھی ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں مقتدر حلقوں سے ہمیشہ محاذ آرائی کر کے آپ نہیں چل سکتے۔تمام سیاسی جماعتوں کو آپس میں مذاکرات کرنے چاہئیں۔ ن لیگ کو اس کے لیے اقدام اٹھانا چاہئیے۔ سب سے میچور اور تجربہ کار سیاست دان نواز شریف ہیں، انہیں سیاست کا مستقبل دیکھنا چاہئیے۔ انہیں اپنے اپوزیشن لیڈر کا بھی خود انتخاب کرنا چاہئیے۔ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض جیسا نہیں ہونا چاہئیے بلکہ پی ٹی آئی کا کوئی حقیقی لیڈر اپوزیشن میں ہونا چاہئیے۔
پیپلز پارٹی کی حالیہ خاموشی پر سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ مقتدر حلقوں نے فیصلہ کرنا تھا کہ انہیں پیپلز پارٹی چاہئیے یا پھر ن لیگ۔ چونکہ لڑائی پنجاب میں تھی تو شاید ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا کیونکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کا مقابلہ ن لیگ ہی کر سکتی تھی، پیپلز پارٹی نہیں۔
ممکنہ حکومتی ڈھانچے کے بارے میں سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ انتخابات کے بعد پی ڈی ایم جیسی ہی حکومت بنے گی۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد سوشل میڈیا پر تو بہت غم و غصے کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن میدان میں کوئی گرفتاری یا قربانی دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ ماضی میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے لوگ دباؤ کے باوجود باہر نکلتے اور احتجاج کرتے تھے۔ لیکن پی ٹی آئی کے لوگوں کی شاید اتنی سخت ٹریننگ نہیں ہے، وہ صرف سوشل میڈیا کے کھلاڑی ہیں۔ بظاہر تو یہ بھی بڑی طاقت ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں اسٹیبلشمنٹ اور مقتدر حلقے اتنے طاقتور ہیں، محض سوشل میڈیا پر جنگ لڑ کر آپ اصل لڑائی نہیں جیت سکتے۔