ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے پہلےآخری رات کیا ہوا؟

پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کو ایک جھوٹے مقدمہ قتل میں سزائے موت دئیے جانے سے قبل آخری رات راولپنڈی کی جیل میں کیا کچھ ہوا؟ بھٹو نے جیل میں اپنی زندگی کی آخری رات کیسے گزاری؟
’”تمھیں گلے میں پھندا ڈال کر دم نکلنے تک لٹکائے رکھنے کی سزا دی جاتی ہے”۔ یہ تھے اس جج کے الفاظ جس نے بھٹو کو اٹھارہ مارچ 1978 کو نواب محمد احمد خان کے جھوٹے مقدمہ قتل میں پھانسی کی سزا سنائی۔ تاریخ نے بعد میں بھٹو کی پھانسی کو جوڈیشل مردہ قرار دیا۔ پھانسی کی سزا سنائے جانے کے تین دن بعد 21 مارچ 1978 کو بھٹو نے جیل سے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے ایک خط میں لکھا تھا کہ میرا خدا جانتا ہے کہ میں نے اس آدمی کا خون نہیں کیا۔ مجھ پر جھوٹا کیس جنرل ضیاءالحق کے کہنے پر بنایا گیا ہے۔ میں نے اگر اس جرم کا ارتکاب کیا ہوتا تو مجھ میں اتنا حوصلہ ہے کہ میں اقبال جرم کرلیتا، میں ایک مسلمان ہوں اور مسلمان کی تقدیر کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ بندوں کی عدالت سے تو غلط فیصلے بھی ہوتے ہیں۔ میں اپنا مقدمہ اللہ کی عدالت میں پیش کرتا ہوں۔ میں کوٹ لکھپت جیل کی اس کال کوٹھری میں اپنے ضمیر کے ساتھ مطمئن ہوں۔ میں کسی ملٹری ڈکٹیٹر سے رحم کی اپیل نہیں کروں گا۔ میرے ساتھ میرا اللہ انصاف کرے گا۔
وہ چار اپریل 1979 کی ایک شام تھی جب چار افسران کی ٹیم راولپنڈی کی جیل میں پاکستان کی تاریخ کا ایک باب ختم کرنے کےلیے پہنچی تھی، جیل سپرنٹنڈنٹ یار محمد، مجسٹریٹ بشیر احمد خان، جیل ڈاکٹر صغیر حسین اور کرنل رفیع الدین عدالتی احکامات پر عملدرآمد کےلیے جیل آئے تھے۔
کرنل رفیع الدین نے اپنی کتاب بھٹو کے آخری 323 دن میں تحریر کیا ہے کہ جیل سپرنٹنڈنٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کے سیل کا شام ساڑھے چھ بجے دورہ کیا تھا، جیل عہدیدار نے بھٹو کو کال کوٹھڑی کے فرش پر لیٹا ہوا پایا تو اس نے بھٹو کی توجہ حاصل کرنے کےلیے پہلے ان کا نام پکارا اور پھر حکم نامہ پڑھ کر سنایا، فیصلے میں جو لکھا تھا ان کے چند الفاظ یہ ہیں، عدالتی احکامات کے مطابق 18 مارچ 1978 کے لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق آپ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے تختے پر چڑھایا جائے گا آپ کی سپریم کورٹ میں درخواست 6 فروری 1979 کو مسترد کر دی گئی ہے اور نظرثانی درخواست بھی صدر مملکت نے 24 مارچ 1979 کو مسترد کر دی ہے، اب آپ کو پھانسی پر لٹکانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
جیل سپرنٹنڈنٹ کی بات سننے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ انہیں پھانسی کے احکامات سزا سے 24 گھنٹے پہلے سنائے جانی چاہئے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا، بھٹو نے کہا کہ جب وہ صبح ساڑھے گیارہ بجے اپنی اہلیہ اور بیٹی سے ملے تھے تو انہیں سزا کے دن اور وقت کے بارے میں معلوم نہیں تھا جس پر انہیں بتایا گیا کہ سزا کا حکم نامہ جیلر کے پاس تھا۔
کسی ہچکچاہٹ کے بغیر جیل سپرنٹنڈنٹ نے ذوالفقار علی بھٹو سے پوچھا کہ وہ چند گھنٹے میں دی جانے والی سزا سے قبل اپنی وصیت لکھنا چاہتے ہیں تو لکھ لیں جس کےلیے انہوں نے سامان فراہم کرنے کا بھی حکم دیا، بھٹو نے جیلر کو بھی کہا کہ ان کو بلیک وارنٹ دکھائے جائیں جس پر جیلر نے جواب دیا کہ قانون کے مطابق ایسا نہیں کیا جاسکتا، اس کے بعد بھٹو نے کرنل رفیع سے بات کی اور کہا کہ رفیع کیا یہ ڈرامہ ہے؟، کیا اس کو اسٹیج کیا جا رہا ہے؟ بھٹو کو اس سوال کا کوئی جواب نہ ملا، اس کے بعد بھٹو نے یہی سوال دہرایا جس پر رفیع نے جواب دیا سر کیا میں نے کبھی آپ سے مذاق کرنے کی کوشش کی ہے؟ اس پر بھٹو نے کہا کہ کیا مطلب ہے تمہارا؟ سر حکم جاری ہوچکا ہے آپ کو آج پھانسی دی جائے گی، اس کے بعد بھٹو نے بلند آواز میں کہا ’’او کے لیٹ اس فنش اٹ‘‘ اس کا جواب کرنل رفیع نے ’’یس سر‘‘ کہتے ہوئے دیا تھا، اس کے بعد بھٹو نے پوچھا کس وقت آج، بھٹو کے اس سوال کا جواب کرنل رفیع نے اپنے ہاتھ کی سات انگلیاں دکھا کر دیا جس پر بھٹو نے پوچھا سات دن بعد رفیع نے جواب دیا سر سات گھنٹے بعد، بھٹو نے پوچھا آج رات، اس پر رفیع نے اپنا سر ہاں میں ہلاتے ہوئے جواب دیا۔ اس کے بعد ماحول میں سناٹا چھا گیا اور کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد بھٹو نے کہا کہ رفیع ’’دیٹس آل‘‘
رات آٹھ بجے بھٹو نے کافی کا کپ پیا اور انہوں نے جیل میں اپنے مشقتی عبدالرحمٰن کو کہا کہ آج رات ان کو لٹکا دیا جائے گا اور یہ ان کی آخری رات ہے۔ وہ صرف چند ہی گھنٹوں کے مہمان ہیں ، اس رات انہوں نے عبدالرحمٰن کو گرم پانی بھی لانے کےلیے کہا تھا تاکہ وہ اپنی شیو بنا سکیں۔ اس کے بعد وہ کچھ دیر تک اپنے بستر پر بیٹھ کر کچھ لکھتے رہے پھر انہوں نے وارڈن سے پوچھا کہ ان کی پھانسی میں کتنا وقت باقی ہے؟ انہیں وقت بتایا گیا جس کے بعد انہوں نے ان کاغذوں کو جلا ڈالا جو انہوں نے تحریر کیے تھے، رات گیارہ بج کر پچیس منٹ پر عبدالرحمٰن کو کہا کہ وہ کچھ دیر سونے کی کوشش کرتے ہیں کیوں کہ وہ گزشتہ رات صحیح طرح سو نہیں سکے تھے تاہم انہوں نے آدھی رات میں اٹھانے کی ہدایت بھی کی مگر جلد ہی اسسٹنٹ جیل سپرنٹنڈنٹ اور دیگر عملہ سیل میں آ گئے۔ وہ چاہتے تھے کہ بھٹو ان کے ساتھ باہر چلیں مگر جب انہیں کوئی جواب نہیں ملا تو انہیں سیل کے اندر جانے اور بھٹو کو اٹھانے کی اجازت ملی، عملے نے اس پر عملدرآمد کیا۔ اس موقع پر کرنل رفیع کی معاونت سے بھٹو کا طبی معائنہ ہوا اور ڈاکٹر نے کہا کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ بھٹو کی پھانسی کا وقت قریب آتا جا رہا تھا، اس میں صرف 30 منٹ ہی باقی بچے تھے، رات ایک بج کر پینتیس منٹ پر مجسٹریٹ نے بھٹو سے دریافت کیا کہ انہوں نے وصیت تحریر کر دی؟ اس پر بھٹو نے جواب دیا کہ انہوں نے کوشش تو ضرور کی تھی لیکن ان کے خیالات بہت زیادہ منتشر تھے، اس لیے انہوں نے کاغذات جلا دیئے ہیں۔ اس کے بعد بھٹو کو سزائے موت کا حکم پڑھ کر سنایا گیا اور ہتھکڑی پہنا دی گئی، جب انہیں چبوترے پر پہنچایا گیا تو ان کی ہتھکڑی کھول دی گئی اور ہاتھ کمر پر پہنچنے کے بعد دوبارہ ہتھکڑی لگا دی گئی۔
جلاد تارا مسیح پہلے سے تیار کھڑا تھا، اس نے بھٹو کے چہرے پر نقاب چڑھایا، بھٹو جوانمردی سے کھڑے رہے اور منہ میں کچھ پڑھتے رہے۔ جب گھڑی کی سوئیاں دو بج کر چار منٹ پر پہنچیں تو جلاد نے بھٹو کے کان میں سرگوشی کی اور پھر لیور کھینچ دیا، بھٹو کا جسم پانچ فٹ نیچے گرا اور آدھا گھنٹہ تک اسی پوزیشن پر لٹکتا رہا، اس کے بعد ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور بھٹو کو مردہ قرار دے دیا، یوں پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کی زندگی کا چراغ گل کر دیا گیا جسے بعد میں تاریخ نے جوڈیشل مرڈر قرار دیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button