عمران اگلے دس برس تک اقتدار میں واپس کیوں نہیں آ سکتا؟

سینئر صحافی اور کالم نگار حماد غزنوی کا کہنا ہے کہ عمران خان کو ڈر ہے کہ اگلا آرمی چیف ان کی کرتوتوں سے واقف نکلا تو اگلے دو عام انتخابات تک وہ اقتدار میں نہیں آ سکیں گے اور اگر اسحاق ڈار نے معیشت کو لگام ڈال لی تو ان کا مقبولیت کا گھوڑا لنگڑانے لگے گا، غالباً کچھ ایسے ہی اندیشے عمران خان کو جلد بازی پر اکسا رہے ہیں۔ اپنے تازہ کالم میں حماد بتاتے ہیں کہ ایک زمانے میں ہمارے محلے میں ایک بہروپیا آیا کرتا تھا جس کا گریبان چاک ، آنکھیں شعلہ بار، سر پہ جعلی ’زخم‘ اور اس سے بہتا تازہ خون چہرے پر پھیلتا ہوا، سینے میں خنجر پیوست جس کا خون آلود پھل پشت سے باہر نکلا ہوا ، کمر پر ایک مردہ چیل بندھی ہوئی ، اور ہاتھ میں اینٹ ، وہ راہ گیروں کی طرف لپکتا، انہیں اینٹ مارنے کی دھمکی دیتا، اوراکثر لوگ ڈر کر کچھ سکّے بہروپیے کے حوالے کر دیتے۔ اس زمانے میں لاہور میں موٹر کاریں کم کم تھیں، لیکن اگر گلی میں کوئی کار آ جاتی تو اسے لازماً کچھ نہ کچھ دے کر ہی گاڑی اور جان بچانا پڑتی تھی۔یہ الگ بات تھی کہ بہروپیے نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے دوران کبھی کسی کو اینٹ نہیں ماری تھی، وہ بس ہر کسی کو ڈراتاتھا، دھمکاتا تھا، کہ ڈرانا دھمکانا ہی اس کا ذریعۂ معاش تھا۔
حماد غزنوی کے مطابق قومی سیاسی منظر نامہ دیکھ کر وہ بہروپیا ان دنوں کثرت سے یاد آتا ہے ، اور یہاں اس کا حلیہ اور طریقۂ واردات بیان کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اگر سیاسی اُفق پر کوئی بہروپیا نظر آئے تو احباب کو پہچاننے میں چنداں دشواری نہ ہو،سیاسی صورتِ حال کا جائزہ لینے سے پہلے ایک غیر سیاسی شخصیت کے غیر سیاسی بیان کا ذکر کرتے ہوئے حماد غزنوی کہتے ہیں کہ ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ کسی فرد یا گروہ کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ پاکستان کو سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے دوچار کرے۔چیف صاحب کا روئے سخن کس طرف ہے؟ کیا وہ شہباز شریف سے مخاطب ہیں یا زرداری صاحب سے یا مولانا فضل الرحمٰن سے؟ یا عمران خان سے؟ ویسے لگتا ہے چیف صاحب نے یہ تکنیک عمران خان سے ہی سیکھی ہے کہ اشاروں کنایوں میں کسی کو ملک دشمن اور غدار کیسے قرار دیا جاتا ہے۔سادہ لفظوں میں چیف صاحب کہہ یہ رہے ہیں کہ خونی لانگ مارچ، جلائو گھیرائو اور صوبوں سے مرکز پر یلغار کے لیے یہ وقت موزوں نہیں ہے، ہم ابھی ڈیفالٹ کے خطرے سے نکل رہے ہیں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کی کوشش میں ہیں، اور الیکشن تو ہو ہی جانا ہے، دو چار مہینے پہلے یا بعد میں، اور اگر کوئی حقیقی آزادی کی خواہش میں گُھلا جا رہا ہے تو اسے چاہیے، وہ وقتی طور پر پنجاب، کے پی کے، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے دورہ پر چلا جائے اور حقیقی آزادی کے انوار میں غسلِ شادمانی فرمائے اور انتظار فرمائے،لہٰذا کسی کو اینٹ پکڑ کر اسلام آباد آنے اور ڈرانے دھمکانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
حماد غزنوی کے مطابق ، سیاست سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو چیف صاحب کی بات تو معقول ہے، دوچار مہینے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یہی بات قصرِ صدارت میں ہونے والی ملاقاتوں میں بھی خان صاحب کو سمجھانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ویسے لگتا یہی ہے کہ عمران خان بھی لانگ مارچ کرنا نہیں چاہتے، بس ڈرانا چاہتے ہیں، اور ڈرا کر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ڈرانا دھمکانا عمران خان کا طرزِ سیاست ہے، وہ اپنے سیاسی حریفوں کو ڈراتے ہیں، پولیس اور ایف آئی اے کو ڈراتے ہیں، عدالتوں کو ڈراتے ہیں، الیکشن کمیشن کو ڈراتے ہیں، اور پھر اپنی اسی پالیسی کی کامیابی دیکھتے ہوئے ایک دن وہ اینٹ پکڑ کر اپنے ’خالق‘ کی طرف دوڑ پڑے، حتیٰ کہ اب وہ آنے والے چیف کو دھمکانے کی کوشش کر رہے ہیں، دھمکی دے رہے ہیں کہ میری مرضی نہ مانی گئی تو ’آنے والے‘ کو متنازع بنا دوں گا۔ حماد غزنوی کہتے ہیں کہ جب خان صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آپ کی فوری اقتدار کے حصول کی ضد سے پورا سسٹم ڈی ریل ہو سکتا ہے، تو خان صاحب مبینہ طور پر فرماتے ہیں کہ’ آپ مجھے ڈرانے کی کوشش نہ کریں۔‘ نومبر کی اہم تعیناتی کو عمران خان اپنے سیاسی مستقبل کی نسبت سے فیصلہ کن سمجھ بیٹھے ہیں، دراصل انہوں نے ابھی تک اقتدار میں آنے کا ایک ہی طریقہ دیکھا ہے، یعنی اداروں کے کاندھے پر سوار ہو کر، اور اس بات سے وہ بہت گھبراتے ہیں کہ اگلا سپہ سالار کوئی ایسا نہ آ جائے جو ان کے’ اعمال‘ کا شاہد ہو، اور بالخصوص ان کے مالی معاملات کی خیرہ کُن تفصیلات سے آگاہ ہو، کیوں کہ اس کا مطلب ہو گا کہ اگلے تین سال بلکہ غالباً چھ سال، یعنی اگلے دو انتخابات تک، انہیں کوئی فیصلہ کُن کاندھا میسر نہیں ہوگا، جس کا مطلب ہو گا کہ انہیں 2033 کا انتظار کرنا ہو گا،اور تب تک عمران خان 80 سال سے بھی زیادہ عمر کے بزرگ ہو چکے ہوں گے۔
حماد غزنوی کے مطابق غالباً کچھ ایسے ہی اندیشے عمران خان کو جلد بازی پر اکسا رہے ہیں۔محسوس یوں ہوتا ہے انہیں خدشہ ہے کہ اگر اسحاق ڈار نے معیشت کو لگام ڈال لی تو ان کا مقبولیت کا گھوڑا لنگڑانے لگے گا، اور اوپر سے اداروں کی حقیقی نیوٹریلٹی کا تازیانہ۔دوسری طرف آڈیو لیکس ہیں، جو کبھی ایک نقاب نوچتی ہیں کبھی دوسرا ، کبھی سائفر اور سازش کے بیانیے کا مذاق بنتا ہے، کبھی خان صاحب سب سے بڑے ’گھوڑوں کے تاجر‘ کے طور پر سامنے آتے ہیں، ایک لِیک حقیقی آزادی کے مجاہد کا سوانگ اُڑا لے جاتی ہے، تو دوسری ایمانداری کا میک اپ بہا لے جاتی ہے۔ اسی لیے عمران خان شاید قائل ہو چکے ہیں کہ یہ ” ابھی نہیں تو کبھی نہیں”‘ والا معاملہ ہے۔