فٹبال اور باکسنگ کی سرزمین لیاری، جرائم کا گڑھ کیسے بنی؟

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جہاں ایک طرف ٹارگٹ کلنگ کے پے درپے واقعات نے لوگوں کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے وہیں دوسری طرف مختلف گینگز ایک بار پھر فعال ہو چکے ہیں اور انھوں نے شہریوں سے بھتہ وصولی شروع کر دی ہے جبکہ شہری بھی خوف کے مارے بھتہ دینے میں ہی اپنی عافیت سمجھ رہے ہیں ۔ گینگسٹرز تاریکی میں بھتہ وصول کرتے ہیں اور چند ہی لمحوں میں جائے وقوعہ سے فرار ہو جاتے ہیں۔

تاہم سوال یہ ہے کہ لیاری جسے کبھی فٹبال، سائیکل، باکسنگ سمیت دیگر کھیل سے محبت کرنے والوں کی زمین کہا جاتا تھا، جرائم کا گڑھ کیسے بنا؟اس سوال کا جواب لیاری کے باسی یار محمد کسرکندی کچھ یوں دیتے ہیں کہ ’جرائم کے اس سفر کے مرکزی کردار افشانی گلی کے دو بھائی شیر محمد جسے شیرو کہا جاتا تھا اور داد محمد جسے دادل کہا جاتا تھا، کے درمیان گھومتی ہے۔‘انہوں نے بتایا کہ ’دادل، رحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیت کا باپ تھا اور شیرو اور دادل منشیات کا دھندہ کرتے تھے۔ اپنے کام کو پھیلانے اور طاقت حاصل کرنے کے لیے انہوں نے اپنا گروہ منظم کیا۔ اس گروہ کے مدمقابل اقبال عرف بابو ڈکیت کا گروہ تھا جو لیاری کے علاقے کلری اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں فعال تھا۔ یہاں سے لیاری گینگ وار کا آغاز ہوا۔‘

اردو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق اسی زمانے میں حاجی لالو بھی اپنے سات بیٹوں کے ساتھ لیاری کے سرحدی علاقوں میں اپنا دھندہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ یہ ایک طاقت ور گینگ تھا اور اس کے بیٹے ارشد پپو اور یاسر عرفات کی موجودگی میں یہ گروہ علاقے میں ایک خاص حیثیت رکھتا تھا۔ لیاری کے علاقوں پاک کالونی، ریکسر لائن جہان آباد اور شیر شاہ قبرستان اس گروہ کی سرگرمیوں کا مرکز تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ’طاقت کے حصول اور بے تحاشہ پیسہ حاصل کرنے کے لیے یہ گروہ شہر کے دیگر علاقوں میں بھی سرگرم ہو گئے۔ اور کراچی شہر نے ایک ایسا وقت بھی دیکھا جب لیاری کی یہ گینگ وار لیاری سے نکل کر ملیر، ڈالمیا، شانتی نگر، کورنگی، شیر شاہ، منگھوپیر اور بلدیہ ٹاؤن سمیت شہر کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گئی۔‘

ایک ساتھ کام کرنے والے گینگ کب الگ ہوئے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اپنی ملازمت کا طویل عرصہ کراچی کے علاقے لیاری میں گزارنے والے پولیس کے سابق افسر شعیب علی اس طرح دیتے ہیں کہ  ’پیسے اور طاقت کے حصول کے لیے بابو ڈکیت نے دادل رحمان ڈکیت کے باپ کو اپنے راستے سے ہٹایا، دادل کی موت کے بعد حاجی لالو نے رحمان کو پروان چڑھایا۔ اپنی ماں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرنے والے رحمان نے حاجی لالو کی توقعات سے بڑھ کر کام کیا اور گینگ کو مضبوط کیا۔ بابو ڈکیت کو قتل کر کے رحمان نے اپنے باپ کا بدلہ لیا۔‘حاجی لالو کے ساتھ کام کرنے والے رحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیت نے جلد ہی اپنی راہیں حاجی لالو کے گروہ سے الگ کر لیں اور ماضی میں ساتھ کام کرنے والا یہ گروہ اب دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔اور ان دنوں ہی قتل و غارت گری کے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہوا۔ دونوں گرہوں نے ایک دوسرے کے قریبی رشتے داروں کو قتل کیا اور ایک دوسرے کو مارنے کی بھی بھرپور کوششیں کیں۔
رحمان نے لیاری میں اپنی ایک نئی شناخت بنائی اور تیزی سے لیاری کے چھوٹے چھوٹے گینگز کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ مشکل حالات میں رحمان کچھ عرصے کے لیے کراچی سے باہر بھی رہا، لیکن ارشد پپو کی پولیس کی جانب سے گرفتاری کے بعد اس نے واپس شہر کا رخ کیا اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے علاوہ اپنے گینگ کو بھی پروان چڑھایا۔
سیاسی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی رفعت سعید کا کہنا ہے کہ ’رحمان نے لیاری کے جرائم کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔‘ان کے مطابقٟ، پاکستان پیپلز پارٹی جو لیاری کو اپنا گڑھ مانتی ہے وہاں رحمان نے سیاسی لوگوں کو گینگ سے جوڑا اور پھر جب 18 اکتوبر کو بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر ان کے قافلے پر حملہ ہوا تو اس وقت بھی سابق وزیراعظم بے نظیر کو باحفاظت گھر تک پہنچانے میں رحمان اور اس کے لڑکوں نے اہم کردار ادا کیا۔

لیاری گینگ وار کا نامور کردار عزیر بلوچ کون ہے؟اس سوال کو جواب دیتے ہوئے رفعت سعید کا کہنا ہے کہ ’فیض محمد عرف فیضو ماما سندھ بلوچستان کے لیے چلنے والی بسوں کے اڈے پر کام کرتے تھے۔ اس کا شمار رحمان کے قریبی ساتھیوں میں کیا جاتا تھا۔‘انہوں نے بتایا کہ ’فیض محمد کے ارشد پپو کے لیے کام نہ کرنے پر انہیں قتل کیا گیا۔ فیض محمد عرف فیضو ماما عزیر بلوچ کا باپ تھا۔ اس زمانے میں عزیر جرائم کی دنیا سے دور لیاری کے ایک ہسپتال میں کام کرتا تھا اور لیاری میں فٹبال کا ایک بہترین کھلاڑی تھا۔‘رفعت سعید نے کہا کہ ’باپ کی موت کے بعد رحمان نے عزیر کو اسی طرح اپنی سرپرستی میں رکھا جیسے کبھی حاجی لالو نے رحمان کو رکھا تھا۔ پھر ایک روز رحمان کی پولیس مقابلے میں موت کے بعد عزیر نے لیاری کا کنڑول سنبھالا اور پیپلز امن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے نہ صرف ماضی میں اپنی حمایتی جماعت پیپلز پارٹی کو الیکشن میں شکست دی بلکہ لیاری میں کام کرنے والے گینگز کو جدید انداز میں آپریٹ کیا۔‘
لیکن یہ معاملہ بھی پیسے اور طاقت کی وجہ سے نہ چل سکا اور جلد ہی عزیر کے ساتھ کام کرنے والے بابا لاڈلہ عزیر سے الگ ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے استاد تاجو، شاہد بکک سمیت دیگر گروہ اپنی اپنی سمت میں کام کرنے لگے۔لیاری میں غفار ذکری گروپ بھی فعال ہوا اور کچھی ایکشن کمیٹی بھی بنی۔ تاہم نیشنل ایکشن پلان کے بعد لیاری سمیت کراچی میں آپریشن کیا گیا جس کے نتیجے میں ان گینگز کے کارندے گرفتار بھی ہوئے اور پولیس مقابلوں میں مارے بھی گئے۔عزیر بلوچ سمیت دیگر افراد اس وقت قانون کی گرفت میں ہیں اور شہر میں یہ گینگ اب غیر فعال ہیں۔

Back to top button