لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال اڈیالہ جیل سے رہا

اسلام آباد ہائیکورٹ سے ضمانتیں منظور ہونے کے بعد سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا۔
گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے دونوں لیگی رہنماؤں کی ضمانتیں ایک، ایک کروڑ کے مچلکوں کے عوض منظور کی تھیں۔ اڈیالہ جیل سے رہائی کے موقع پر کارکنوں کی بڑی تعداد نے رہنماؤں کا استقبال کیا اور گل پاشی بھی کی۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کو ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی رہائی کے لیے ایک کروڑ کے ضمانتی مچلکے راجہ وقار ممتاز نے احتساب عدالت میں جمع کرائے، جس کے بعد جج اعظم خان نے رہائی کی روبکار جاری کر دی۔ ایل این جی ریفرنس میں گرفتار اور اسیر لیگی رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی رہائی کے لیے ضمانتی مچلکے تحصیلدار سے تصدیق کے بعد احتساب عدالت میں جمع کرائے گئے تھے۔
دوسری جانب نارووال سپورٹس سٹی کیس میں احسن اقبال کی رہائی کے لیے ایک کروڑ کے ضمانتی مچلکے انجم عقیل خان نے جمع کرائے۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کے بعد احسن اقبال کی رہائی کی روبکار جاری کی۔ روبکاریں جاری ہونے کے بعد مسلم لیگ کے دونوں رہنماؤں کو اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔ احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی کی رہائی کے موقع پر جیل کے باہر لیگی کارکنوں کی بڑی تعداد جمع تھی جنہوں نے ان کے حق میں نعرہ بازی کی اور پھولوں کی پتیاں بھی نچھاور کیں۔
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے شاہد خاقان عباسی کی ایل این جی کیس جب کہ احسن اقبال کی نارووال اسپورٹس سٹی کمپلیکس کیس میں ضمانت منظور کی تھی۔ دوسری جانب قومی احتساب بیورو (نیب) نے دونوں رہنماؤں کی ضمانتوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ 18 جولائی 2019 کو نیب نے ایل این جی کیس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو ٹھوکر نیاز بیگ ٹول پلازہ لاہور سے گرفتار کیا تھا۔ نیب نے رہنما مسلم لیگ ن کو ایل این جی کیس میں عدم تعاون پر گرفتار کیا تھا۔ اس سے قبل انہوں نے کیس میں پیش ہونے سے انکار کیا تھا۔
یاد رہے کہ 23 دسمبر 2019 کو نیب نے مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کو نارووال اسپورٹس سٹی کیس میں مبینہ گھپلوں کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا۔
گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے نارووال سپورٹس کمپلیکس کیس میں احسن اقبال اور ایل این جی کیس میں شاہد خاقان عباسی کی ضمانت منظور کرتے ہوئے دونوں لیگی رہنماؤں کو ایک، ایک کروڑ کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے درخواست ضمانت پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کبھی انکوائری پر گرفتار کرتے ہیں اور کہیں ریفرنس کے بعد بھی نہیں پکڑتے ؟ مقدمہ ثابت ہونے تک ملزم بے گناہ ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ملزم کی گرفتاری کا نیب اختیار شہری کو آئینی حقوق سے محروم نہیں کرسکتا، اگر درخواست گزار معاونت جاری رکھتے ہیں تو گرفتار کیوں کر رہے ہیں، دونوں ملزمان کو ابھی تک معصوم کہا جاسکتا ہے ؟ غیرضروری گرفتاری کی وجہ پر عدالت کو مطمئن کریں۔ احسن اقبال کے وکیل نے موقف اپنایا کہ نیب گرفتار کرتا، پلی بارگین کیلئے 10 کروڑ روپے مانگتا اور چھوڑ دیتا ہے، بظاہر نیب اغواء برائے تاوان کیلئے لوگوں اٹھاتا ہے جس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا پلی بارگین دنیا بھر میں ہے، ملک میں کرپشن بھی تو ہے، نیب عدالت نہیں، صرف تحقیقاتی ادارہ ہے۔ نیب پراسیکیوٹر بولے نیب صرف شکایت پر بھی گرفتار کر سکتا ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ کیا محض شکایت پر بھی گرفتارکرتے ہیں ؟ کریمنل کیس میں ریکوری کرنی ہوتی ہے، نیب پراسیکوٹر نے احسن اقبال پر چار الزمات کی وضاحت کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ الزامات میں کہیں کریمنل نیت یا مالی فائدہ لینے کا ذکر تک نہیں، ٹرائل میں جرم ثابت کر کے ملزمان کو 16 سال قید کی سزا دلوائیں غلطی پر بھی کرپشن کیس بنے گا تو گورننس کا پورا نظام رک جائے گا ؟۔ عدالت نے استفسار کیا احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی کو گرفتار کیوں کیا گیا ؟ تفتیش مکمل ہے تو احسن اقبال اور شاہد خاقان کو مزید جیل میں کیوں رکھا جائے ؟ احسن اقبال، شاہد خاقان کو ووٹ ملے، انہیں نمائندگی سے کیسے محروم کیا جاسکتا ہے ؟ جن ووٹرز نے احسن اقبال، شاہد خاقان کو ووٹ دیا ان کو کس بات کی سزا ہے ؟ پ کسی کو غیر ضروری گرفتار نہیں کر سکتے، غیر ضروری گرفتاری دراصل اختیارات کا غلط استعمال ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو نے ایک ملزم وفاقی سیکرٹری کو دوسرے سیکرٹری کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنایا، عدالت نے احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی کی ضمانت مںظورکرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔