منور ظریف ایشیا کے سب سے بڑے کامیڈین کیوں کہلائے؟

فلمی دنیا کے بڑے بڑے کامیڈین پاکستانی مزاحیہ فنکار منور ظریف کو اپنا استاد اور گُرو مانتے ہیں، نامور کامیڈین عمر شریف نے ایک بار کہا تھا، ’منور ظریف مزاح کا ماؤنٹ ایورسٹ ہیں اور کوئی بھی اگر کامیڈی میں کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے منور ظریف کا انداز اختیار کرنا ہوگا۔‘چہرے کے تاثرات، جسمانی حرکات اور برجستہ فقروں کی ادائیگی کسی بھی کامیڈین کی کامیابی کے لیے ضروری ہے، منور ظریف نے جب فلموں میں قدم رکھا تو انہوں نے اسی فارمولے پر عمل کیا۔ وہ مختصر زندگی جیے مگر ہمیشہ کے لیے شہنشاہِ ظرافت کا خطاب اپنے نام کرنے میں کامیاب رہے۔منور ظرف نے جب اداکاری کا آغاز کیا تو ان کے لیے میدان خالی نہیں تھا۔ نذر، لہری، رنگیلا اور نرالا ایسے اداکار لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر رہے تھے۔ کامیابی مگر دو بھائیوں ظریف اور منور ظریف کو ہی مل سکی اور ان کے باقی تینوں بھائیوں پر ان کی طرح قسمت اور شہرت کی دیوی مہربان نہیں ہوئی۔اداکار ظریف نے 50 کی دہائی میں بے پناہ شہرت حاصل کی۔ وہ تیز رفتاری سے مکالمے ادا کیا کرتے اور بات سے بات نکالنے کے ہنر میں یکتا تھے۔ ان کا اصل نام محمد صدیق تھا اور انہوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کی فلموں میں کام کیا۔ منور ظریف پر اس وقت تک فلمی سٹوڈیوز کے دروازے بند تھے کیوںکہ ظریف نے اپنے چھوٹے بھائی کو یہ واضح ہدایت کر رکھی تھی کہ ’وہ اگر سٹوڈیو میں نظر آئے تو وہ ان کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔‘منور ظریف نے اپنے بڑے بھائی کی وفات کے بعد فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ ان کی پہلی فلم ’ڈنڈیاں‘ تھی۔ وہ (علی اعجاز) اور منور ظریف ایک ہی سکول میں پڑھتے رہے تھے۔‘ منور ظریف کچھ تاریخی حوالوں کے مطابق ، 25 دسمبر 1940 کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے جب کہ کچھ ان کی تاریخ پیدائش 2 فروری 1940 بتاتے ہیں۔گوجرانوالہ کے منور ظریف نے صرف 20 سال کی عمر میں روشنیوں کی چکاچوند میں قدم رکھا۔ منور ظریف مزاحیہ اداکاری کی جملہ اصناف میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ وہ بذلہ سنجی ، حاضر دماغی، برجستگی اور جسمانی حرکات و سکنات سے فلم بینوں کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیرنے کے آرٹ میں اپنے تمام معاصرین پر سبقت رکھتے تھے۔منور ظریف اور رنگیلا کی جوڑی نے فلم بینوں میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی۔ ان دونوں نے اکٹھے کئی فلموں میں کام کیا جن میں ’ہتھ جوڑی‘، ’بدلہ‘، ’ملنگی‘، ’چڑھدا سورج‘، ’یارمار، ’بائو جی‘ اور کئی دوسری فلمیں شامل ہیں۔ ’بدلہ‘ میں منور ظریف کے کام کو بہت پسند کیا گیا جس میں انہوں نے ایک ایسے نوجوان کا کردار ادا کیا جو بھنگ کا نشہ کرتا ہے۔منور ظریف نے اپنے 15 برس کے مختصر کیریئر میں 300 سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔ یوں وہ ہر سال اوسطاً 20 سے زیادہ فلموں میں کام کرتے رہے، منور ظریف نے خود کو مزاح تک محدود نہیں رکھا۔ وہ ہیرو، ولن کے علاوہ سائیڈ ہیرو کے کردار میں بھی جلوہ گر ہوتے رہے۔ ان کا 1970 میں ریلیز ہونے والی فلم ’ہیررانجھا‘ میں ادا کیا گیا کھیڑے کا کردار ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔منور ظریف نے 70 کے قریب اُردو فلموں میں کام کیا، منور ظریف کی یوں تو بہت سی فلمیں کامیاب ہوئیں مگر بنارسی ٹھگ، جیرا بلیڈ، خوشیا، منجھی کتھے ڈانواں، چکرباز، بندے دا پتر، ملنگی، ڈاچی، بھریا میلا، لاڈو، مرزا جٹ، میرا نام پاٹے خان، بندے دا پتر، شیدا پستول، نمک حرام اور حکم دا غلام قابلِ ذکر ہیں جبکہ اُردو فلموں میں آئینہ، ہم راہی، دیا اور طوفان، تم ہی ہو محبوب میرے، انسان اور آدمی، رنگیلا، دل اور دنیا، دامن اور چنگاری اور بہارو پھول برساؤ اہم ہیں۔منور ظریف 29 اپریل 1976 کو اپنے انتقال تک 30 سے زیادہ فلموں میں کام کر رہے تھے جو ان کی موت کے چار برس بعد تک ریلیز ہوتی رہیں۔ ان کی آخری فلم ’لہو دے رشتے‘ تھی جو سنہ 1980 میں ریلیز ہوئی۔

Back to top button