خفیہ ایجنسی کے سربراہ کا خفیہ رہنا کیوں ضروری ہے؟
خفیہ ایجنسی

پاکستانی سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر یہ بحث جاری ہے کہ کیا ہمارے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ کی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر تشہیر ہونی چاہیے اور انھیں خبروں میں موضوع بحث ہونا چاہیے یا نہیں؟ اس بحث کا آغاز تب ہوا جب یہ خبر شائع ہوئی کہ آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ ندیم انجم نے متعلقہ حکام کو اپنی تصاویر یا ویڈیوز تشہیر کی غرض سے میڈیا یا دیگر ذرائع ابلاغ کو فراہم کرنے سے منع کیا ہے۔ یاد رہے کہ حال ہی میں نئے آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم بعض اجلاسوں میں شریک تھے جن کی صدارت وزیر اعظم کر رہے تھے، تاہم حیران کن طور پر فیض حمید کی طرح ان کی ویڈیوز، تصاویر یا ان ملاقاتوں کے حوالے سے سرکاری بیانات یا تصاویر جاری نہیں کی گئیں۔ خیال رہے کہ موجودہ آئی ایس آئی چیف کے پیشرو لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی وجہ شہرت ہی وہ تصاویر اور ویڈیوز رہی ہیں جو ان کے بطور ڈی جی آئی ایس آئی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی جاتی رہی ہیں۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں بھی مسلح افواج اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو کسی بھی قسم کی تشہیر یا اپنی شناخت، مقام، فوجی املاک اور اپنی ڈیوٹیز سے متعلق معلومات پبلک کرنے کی اجازت نہیں ہے اور ان ممالک کے قوانین میں ایسے کسی بھی اقدام کی صورت میں سزائیں بھی متعین ہیں۔ یہ عام طور پر سیکرٹ ایکٹس کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہیں۔ مگر پاکستان میں خفیہ ایجنسی یا فوج کے سربراہان کے حوالے سے روایت کچھ مختلف رہی ہے۔ چونکہ آئی ایس آئی کا سربراہ عموماً ایک حاضر سروس فوجی افسر ہوتا ہے اس لیے فوجی قوانین میں موجود قواعد و ضوابط کا پابند ہوتا ہے۔ مگر یہ اتنی طاقتور پوزیشن سمجھی جاتی ہے کہ یہاں تعینات ہونے والے سربراہان تشہیر کے حوالے سے ذاتی پسند، ناپسند کے قائل نظر آتے ہیں۔ اسی لیے مختلف ادوار میں مختلف طرز عمل نظر آتا ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ آئی ایس آئی اتنی زیادہ سیاست میں ملوث ہو چکی ہے اس کا سربراہ خود کو لو پروفائل رکھ نہیں سکتا جیسا کہ ماضی میں احمد شجاع پاشا، ظہیر الاسلام اور فیض حمید کے ادوار میں ہوا۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ یہ عمل آئی ایس آئی کے اپنے ایس او پیز کی خلاف ورزی تھا اوری سیکرٹ ایکٹس کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف کو میڈیا میں رہنا پسند تھا اور ان کے بعد آنے والے آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف تو پبلیسٹی کے حوالے سے مشہور ترین شخصیت رہے، جن پر سوشل میڈیا پر بے شمار ٹرینڈز بنے۔ مگر پرویز مشرف، اشفاق پرویز کیانی، راحیل شریف اور موجود آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ کام کرنے والے آئی ایس آئی سربراہان کا رویہ ایک دوسرے سے مختلف رہا ہے۔ حال ہی میں آئی ایس آئی چیف کے عہدے سے سبکدوش ہونے والے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اپنی ایجنسی میں کیریئر کے دوران متنازع طور پر خبروں کی زینت بنے رہے ہیں۔ ان کا نام پہلی بار تب سامنے آیا جب فیض آباد کے مقام پر تحریک لبیک کے دھرنے کو ختم کرنے کی دستاویز پر ان کے دستخط نظر آئے۔ اس وقت وہ بطور میجر جنرل آئی ایس آئی میں تعینات تھے۔ ان کی تصاویر، ویڈیوز اور ان سے متعلق خبریں ان کے بطور ڈی جی آئی ایس آئی ہمشیہ ہی زیرِبحث رہی ہیں۔ وہ بطور آئی ایس آئی سربراہ آخری دنوں تک میڈیا پر چھائے رہے، یہاں تک کہ افغان حکومت کے خاتمے کے بعد کابل کے سرینا ہوٹل میں قہوے کی پیالی ہاتھ میں تھامے ان کی ایک تصویر بھی وائرل ہوئی اور پھر کچھ صحافیوں نے وہاں آن کیمرہ ان سے سوالات بھی کیے جن کا انھوں نے مختصراً جواب بھی دیا۔ ان کی آئی ایس آئی میں سروس کا خاتمہ بھی سوشل میڈیا ٹرینڈز اور بڑی ہیڈلائنز پر ہوا جب وزیراعظم نے انکی بطور کور کمانڈر پشاور پوسٹنگ کا نوٹی فکیشن کئی ہفتے روکے رکھا۔
مگر آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ بظاہر اپنی کسی بھی قسم کی تشہیر سے گریز کر رہے ہیں۔ عسکری ذرائع کے مطابق اُن کے عملے کے پاس یہ واضح ہدایات موجود ہیں کہ اُن کی تصاویر یا ان کی ملاقاتوں کی ویڈیوز میڈیا کو نہیں دی جائیں گی، چاہے یہ ملاقاتیں وزیراعظم یا آرمی چیف سے ہی کیوں نہ ہوں۔ خیال رہے کہ کوئی بھی ایسی تصویر یا ویڈیو جس میں آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس آئی موجود ہوں، مسلح افواج کے شعبہ برائے تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر کی منظوری کے بعد ہی میڈیا کو ریلیز کی جاتی ہے۔
نئے آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے عہدہ سنبھالنے کے بعد حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی اور وہ گذشتہ روز اور اس سے پہلے ہونے والے بعض اجلاسوں میں بھی شریک تھے جن کی صدارت وزیراعظم کر رہے تھے تاہم ان کی ویڈیوز، تصاویر یا ان ملاقاتوں کے حوالے سے سرکاری بیانات جاری نہیں کیے گئے۔
بی بی سی نے اس حوالے سے پاکستانی فوج میں جج ایجوٹنٹ جنرل برانچ کے سربراہ رہنے والے لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب سمیت ماضی میں آئی ایس آئی اور انٹیلجنس بیورو یعنی آئی بی کے ساتھ منسلک رہنے والے اہلکاروں سے بات کی۔ آئی ایس آئی کے ایک سابق افسر کہتے ہیں کہ خفیہ ایجنسی میں کام کرنے والے شخص کا تو کام ہی خفیہ رہنا ہے۔ ‘ماڈرن انٹیلیجنس کی تاریخ دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ خفیہ اداروں کے سب سے کامیاب سربراہان وہی رہے جنھوں نے اپنی تشہیر سے اجتناب کیا۔’ انہوں نے کہا۔کہ آئی ایس آئی کے سابق اہلکار کہتے ہیں کہ خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا ‘کھلے مزاج کے آدمی تھے اور انھیں حد سے ذیادہ شوق تھا کہ وہ خبروں میں رہیں لہٰذا وہ سستی شہرت کے بہانے ڈھونڈتے رہتے تھے۔ یہی حال ظہیر الاسلام اور فیض حمید کا تھا۔ لیکن درمیان میں جب لیفٹیننٹ جنرل (ر) نوید مختار اور لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر آئی ایس آئی کے سربراہ بنے تو آئے تو وہ میڈیا یا عوامی نظر میں رہنا پسند نہیں کرتے تھے اور انکے عملے کو ہدایت تھی کہ انکو ‘لو پروفائل’ ہی رکھا جائے۔’
اسٹیبلشمنٹ کے ماؤتھ پیس سمجھے جانے والے بونگی باز لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب بتاتے ہیں کہ فوج میں میڈیا پر آنے اور اپنی نمود و نمائش کا کلچر جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل کے وقت سے شروع ہوا ‘جب ایک بہت بڑی فوجی مشق ضربِ مومن کی تشہیر کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ اس سے انڈیا کو پیغام ملے گا کہ ہم جنگ کے لیے تیار ہیں۔ اور اس مشق کی بہت اچھی کوریج بھی ہوئی۔ مگر اس کے بعد یہ ایک ٹرینڈ ہی بن گیا کہ میڈیا پر بھی آنا ہے، اخباروں اور ٹی وی پر تصاویر بھی ہوں اور جو بھی کام کیا جا رہا ہے اس کی مکمل تشہیر بھی ہو۔ فوجی اصولوں کی بنیاد پر یہ بالکل غلط رواج ہے جو ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔’
دوسری جانب خفیہ ایجنسی کے ایک سابق اہلکار کے مطابق جب سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی آئی ایس آئی کے سربراہ تھے تو وہ بھی خبروں میں زیادہ نظر نہیں آتے تھے۔ ‘یہ اس دور کی بات ہے جب پاکستان میں فوجی حکومت تھی اور خود جنرل پرویز مشرف ہائی پروفائل پبلک فگر رہنا پسند کرتے تھے اور ان کی طرف سے کوئی ایسی پابندی بھی نہیں تھی۔ مگر یہ عہدے کا تقاضا ہے کہ آپ نظروں سے اوجھل رہیں اور اپنا کام کرتے رہیں۔’
پاک فوج میں ایجوٹننٹ جنرل برانچ کے سابق سربراہ رہنے والے امجد شعیب نے اس حوالے سے پالیسی بارے بتایا کہ انٹیلیجنس کے سربراہان ہوں یا فوجی اہلکار، ان کی شناخت اور شخصیت کے بارے میں جاننے کے لیے دشمن کو بہت کوشش کرنی پڑتی ہے، لیکن جب آپ بہت زیادہ پبلک میں آتے ہیں تو آپ دراصل دشمن کو وہ تمام معلومات پلیٹ میں رکھ کر پیش کر رہے ہیں جس کے لیے اسے خاصی تگ و دو کرنی پڑتی تھی۔ اسی بارے میں انٹیلجنس بیورو سے منسلک رہنے والے ایک اہلکار نے کہا کہ ‘انٹیلجنس سربراہ کا فرض ہے کہ وہ اپنا ‘سگنیچر’ کہیں نہ چھوڑے۔’ یعنی کوئی یہ نہ سمجھ سکے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں۔ ایک انٹیلجنس سربراہ کے پاس کئی سفری دستاویزات ہوتی ہیں، اسی طرح کسی کو علم نہیں ہوتا کہ وہ کن ممالک کے دورے کر رہے ہیں اور کن شخصیات سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ یہ سب اس لیے خفیہ رکھا جاتا ہے کہ ان کی نقل و حرکت کو فالو کرنے والوں کو یہ اندازہ لگانا مشکل ہو کہ ملک کی پالیسی کیا ہے، یا کوئی بھی حکومت یا فوج کیا منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملاقاتیں، دورے اور ایجنڈے خفیہ رکھے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا انٹیلجنس ایجنسیوں کے سربراہان مسلسل سفر کرتے ہیں اور دوسرے ممالک میں متعلقہ حکام سے خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے، ‘یہ دوسرے ملکوں میں جاتے رہتے ہیں، ملاقاتیں کرتے ہیں جو خفیہ ہوتی ہیں، اب اگر یہ پہچانے جائیں کیونکہ ان کی ہر طرح کی تصویریں عوامی ڈومین میں موجود ہیں۔ اس طرح آپ کا معلومات خفیہ رکھنے کا مقصد ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ انٹیلیجنس کے سربراہان اور اہلکار کی شناخت اور پہچان متعلقہ افراد کے علاوہ کسی کے پاس نہ ہو۔ لہذا اس حوالے سے آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کا فیصلہ کافی صائب لگتا ہے۔