غذا میں ایک عام چیز کا کم استعمال فالج اور ہارٹ اٹیک سے بچائے

اگر آپ اپنے کھانے میں نمک کی زیادہ مقدار کو پسند کرتے ہیں تو بہتر ہے کہ اب اس عادت پر نظرثانی کرلیں۔
درحقیقت کھانے میں عام نمک کی بجائے کم سوڈیم والے نمک کا استعمال کیا جائے تو فالج، ہارٹ اٹیک اور موت کا خطرہ نمایاں حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔
یہ بات آسٹریلیا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
جارج انسٹیٹوٹ آف گلوبل ہیلتھ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ زیادہ سوڈیم والے نمک کی جگہ کم سوڈیم والے نمک کو دینا فالج، ہارٹ اٹیک اور موت کا خطرہ نمایاں حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ یہ تحقیق دنیا کے ہر فرد کے لیے اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ دنیا بھر میں لگ بھگ ہر فرد غذا میں نمک کا استعمال کرتا ہے اور لگ بھگ ہر ایک ہی توقع سے زیادہ مقدار میں نمک کو جزوبدن بناتا ہے۔
بالغ افراد کو دن بھر میں ایک چائے کے چمچ نمک کے استعمال کا مشورہ دیا جاتا ہے اور نمک کی زیادہ مقدار کا استعمال بلڈ پریشر بڑھنے، گردوں کو نقصان پہنچنے، فالج اور ہارٹ اٹیک سے منسلک بڑھایا جاتا ہے۔
تحقیق میں اپریل 2014 سے جنوری 2015 کے دوران چین کے 600 دیہات کے 21 ہزار بالغ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کو ماضی میں فالج یا بلڈ پریشر کے مسائل کا سامنا ہوا تھا۔
محققین نے ہر گاؤں سے زیادہ سے زیادہ 35 افراد کی خدمات حاصل کی تھیں اور انہیں 2 گروپس میں تقسیم کرکے عام نمک یا متبادل نمک کا استعمال کرایا گیا۔
ایک گروپ کو مفت متبادل نمک (75 فیصد سوڈیم کلورائیڈ اور 25 فیصد پوٹاشیم کلورائیڈ پر مبنی) فراہم کیا گیا۔
رضاکاروں کی اوسط عمر 65 تک تھی اور ان میں 49.5 فیصد خواتین تھیں، 72.6 فیصد میں فالج اور 88.4 فیصد میں بلڈ پریشر کی تاریخ تھی۔
ان افراد کا ائزہ لگ بھگ پونے 5 سال تک لیا گیا اور 3 ہزار سے زیادہ کو فالج کا سامنا ہوا، 4 ہزار سے زیادہ ہلاک اور 5 ہزار سے زیادہ افراد کو دل کی شریانوں سے جڑے کسی مرض کے ایونٹ کا سامنا ہوا۔
مگر محققین نے دریافت کیا کہ عام نمک کے متبادل نمک کو استعمال کرنے والے افراد میں فالج کا خطرہ 14 فیصد تک کم ہوگیا۔
امراض قلب (فالج اور ہارٹ اٹیک) کا خطرہ 13 فیصد اور قبل از وقت موت کا خطرہ 12 فیصد تک کم ہوگیا۔
اسی طرح ان افراد کا بلڈ پریشر لیول بھی دوسرے گروپ کے مقابلے میں کم ہوا۔
محققین کا کہنا تھا کہ نتائج بہت حوصلہ افزا ہیں کیونکہ متبادل نمک عام نمک کو غذا سے دور رکھنے کےلیے چند عملی ذرائع میں سے ایک ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع ہوئے۔
بشکریہ: ڈان نیوز