کیا فوجی اسٹیبلشمنٹ گیلانی کے ہاتھوں سنجرانی کو ہارنے دے گی؟

حکومت اور اسٹیبلشمینٹ کے امیدوار صادق سنجرانی اور اپوزیشن اتحاد کے یوسف رضا گیلانی کے درمیان چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں اعدادو شمار تو واضح طور پر گیلانی کے حق میں ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت دعوی کر رہی ہے کہ وہ دوبارہ ایسا چمت کار دکھائے گی کہ صادق سنجرانی اقلیت میں ہونے کے باوجود جیت جائیں گے۔ دوسری طرف اپوزیشن کی توقع ہے کہ 2019 کے ماضی کو دھرانا اب ممکن نہیں اور اس بار یوسف رضا گیلانی جیتیں گے جنہوں نے اقلیت میں ہونے کے باوجود اسلام آباد کی نشست سے سینٹ الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ یاد ریے کہ اس وقت سینیٹ میں اپوزیشن اتحاد کے پاس 53 ارکان کی اکثریت ہے جبکہ حکومتی اتحاد کے پاس 47 اراکین ہیں یعنی اپوزیشن کو 6 ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔
سینیئر صحافی اور اینکرپرسن سہیل وڑائچ اپنے تازہ تجزیے میں کہتے ہیں کہ اگر تو مقتدرہ یعنی اسٹیبلشمینٹ نیوٹرل رہی تو پلڑا واضح طور پر یوسف رضا گیلانی کے حق میں جھکے گا لیکن آثار بتا رہے کہ مقتدرہ کی غیر جانب داری کا مطلب بہرحال حکومت وقت کی حمایت ہے، مکمل غیر جانبداری نہیں۔ ایسی صورتحال میں صادق سنجرانی ایک بار پھر سینیٹ چیئرمین بن سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو ریاست، مقتدرہ اور حکومت مطمئن ہوں گے کہ انھوں نے نہ صرف ایک اعلیٰ ترین ریاستی پوزیشن بچا لی بلکہ وہاں ایک ایسا شخص بٹھا دیا جو ریاست یا مقتدرہ کی مرضی کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھائے گا۔
یاد رہے کہ جب صدر مملکت ملک سے باہر جاتا ہے تو سینیٹ کا چیئرمین قائم مقام صدر بن جاتا ہے اور یوں اسکے پاس افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر کی پوزیشن بھی آجاتی ہے۔ بین الاقوامی ماہرین، فلاحی ریاست اور سکیورٹی سٹیٹ میں فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سکیورٹی سٹیٹ میں عدم تحفظ کے احساس کو ختم کرنے کے لیے ہر اہم اور حساس جگہ پر اپنے بااعتماد آدمی بٹھائے جاتے ہیں تاکہ کسی بھی طرف سے گڑ بڑ کا احتمال نہ ہو۔ صادق سنجرانی کو بھی چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر برقرار رکھنے میں یہی ذہنیت کار فرما ہے۔ اس ذہنیت کے مطابق ہر مورچے پر اپنا سپاہی ہونا چاہیے، تبھی جا کر قلعہ پاکستان کی صحیح طور پر حفاظت ہو سکتی ہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اگر یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ بن گئے تو وہ حکومت کے لیے کئی مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنیں گے اور اپوزیشن چاہے گی کہ سینیٹ کے ذریعے حکومتی قانون سازی کی ناکہ بندی کر سکے۔ صادق سنجرانی بلوچستان میں اپنی جڑیں ہونے، مقتدرہ کے ساتھ جُڑے ہونے اور مخصوص سیاسی پرورش کی وجہ سے اہم ہیں۔ سیاست میں نسبتاً نوارد ہونے اور کم جانے پہچانے کے باوجود وہ ملک کے تیسرے بڑے اہم عہدے کے لیے منتخب کروائے گئے۔ آج کل سوشل میڈیا پر ان کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہے جس میں وہ کچھ لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ ان پر دراصل کن لوگوں نے مہربانی کی اور وہ چیئرمین سینیٹ کیسے بنے۔ ظاہر ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کی بات کر رہے ہیں جن کو انہوں نے اس ویڈیو میں سکرپٹ رائٹر قرار دیا یے۔ سہیل وڑائچ کے مطابق سنجرانی کا سب سے بڑا پلس پوائنٹ انکی سیدھی سادھی خوش اخلاق شخصیت کا ہونا ہے۔ انکی اہم ترین خوبی یہ ہے کہ ان کا تعلق شورش زدہ صوبہ بلوچستان سے ہے، جہاں اب بھی ملٹری آپریشن جاری ہے اور آئے دن پرتشدد واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ بلوچستان کی سیاست میں زیادہ تر جماعتیں قوم پرست ہیں۔ کچھ پختون قوم پرست جیسے پختونخوا ملی عوامی پارٹی یا پھر بلوچ قوم پرست جیسے بی این پی مینگل یا بی این پی (عوامی)۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کیا زیادہ تر سیاسی جماعتیں شدید نظریاتی ہیں اور مصلحت پسندی پر ان کا کم ہی یقین ہے۔ ایسے میں بلوچستان میں پرو سٹیبلشمنٹ سیاستدانوں اور محب وطن سیاسی جماعت کی ضرورت محسوس کی گئی اور یوں باپ یعنی بلوچستان عوامی پارٹی تشکیل پائی۔ صادق سنجرانی اس جماعت کا اہم ترین ستون ہیں۔ ویسے تو دنیا بھر میں مقتدرہ حلقوں کی پسندیدہ جماعتیں ہوتی ہیں جو اپنے نظریات اور پالیسیوں کی وجہ سے اسٹیبلشمینٹ کو اچھی لگتی ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ روایت شروع ہی سے جاری ہے۔ایوب خان کے زمانے میں کنونشن لیگ ’محب وطن‘ قرار دی گئی اور یحییٰ خان کے زمانے میں قیوم لیگ کو یہ مقدس درجہ حاصل ہو گیا۔
جنرل ضیا الحق کے دور میں جونیجو مسلم لیگ فیورٹ ٹھہری تو جنرل پرویز مشرف دور میں ق لیگ اور پیٹریاٹس کو پسندیدگی کا درجہ مل گیا۔جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں یہی سٹیٹس تحریک انصاف اور بلوچستان عوامی پارٹی کو مل گیا۔ ق لیگ اور پیٹریاٹس تو مقتدرہ کے ساتھ اپنی وابستگی کو سو پردوں میں چھپانے کی کوشش کرتے تھے مگر باپ والے یہ تکلف بھی نہیں کرتے اور وہ بلوچستان اور قومی سیاست میں مقتدرہ کے حلیف ہونے اور اسے قبول کرنے سے ذرا بھی نہیں گھبراتے بلکہ ببانگ دہل اس تعلق کو تسلیم کرتے ہیں۔
صادق سنجرانی کی سیاسی اٹھان بھی دلچسپ ہے۔ وہ چاندی اور سونے کی معدنیات والے ضلع چاغی کے علاقہ نو کنڈی میں پیدا ہوئے۔ہائی سکول وہاں سے پاس کیا اور باقی تعلیم اسلام آباد میں ہی حاصل کی اور یہیں تعلقات بڑھائے۔ وہ سب سے پہلے نواز شریف حکومت میں شامل ہوئے اور ان کے کوآرڈینٹر رہے۔ بعد میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے شکایت سیل کے انچارج بنے۔ ان کے بھائی اعجاز سنجرانی پہلے ثنا اللہ زہری اور اب جام کمال کے بھی سپیشل اسسٹنٹ ہیں۔ غرضیکہ صادق سنجرانی کی پرورش مختلف سیاسی نرسریوں میں ہوئی لیکن انھوں نے کسی سیاسی جماعت کے نظریے کو نہیں اپنایا۔ وہ اب بھی حب الوطنی ہی کے بنیادی نظریے کے حوالے سے اسٹیبلشمینٹ اور ریاست پاکستان کے حامی ہیں۔ سہیل وڑائچ کے مطابق طاقتور فوجی حلقوں سے قریبی تعلق ہی وہ پس منظر ہے جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کو امید ہے کہ صادق سنجرانی سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہوں گے۔
یاد رہے کہ اگست 2019 میں اپوزیشن نے صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی مگر منظور نہیں کروا سکے تھے حالانکہ اس کے سینیٹ میں 64 اراکین تھے۔ جب سینٹ چیئرمین کے لیے خفیہ رائے شماری کا نتیجہ سامنے آیا تو اپوزیشن کے 64 سکڑ کر 50 رہ گئے اور یوں صادق سنجرانی جیت گئے اور میر حاصل بزنجو شکست کھاگئے۔ کچھ ماہ پہلے کینسر کے موذی مرض کے ہاتھوں شکست کھا جانے والے میر حاصل بزنجو نے الیکشن نتیجہ آنے کے بعد یہ بیان دیا تھا کہ سینیٹ میں دراصل آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کامیاب ہوئے ہیں۔
چنانچہ اسی بیک گراونڈ میں سہیل وڑائچ ایک وفاقی وزیر کا نام لیے بغیر اسکا یہ دعویٰ دہراتے ہیں کہ صادق سنجرانی کی فتح پر ہمیں کوئی شک نہیں اور ہمیں ان کے بارے میں کوئی فکر بھی نہیں۔ انکا کہنا ہے کہ وہ جن کا بندہ ہے وہ خود ہی اسکی جیت کا بندوبست بھی کرلیں گے۔