توہین مذہب کے نام پر پُر ہجوم تشدد کا کب ختم ہوگا؟


پاکستان میں آئے روز توہین مذہب کے الزامات کے تحت پرہجوم تشدد کے ذریعے مسلم اور غیر مسلموں کو بےدردی سے قتل کردیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ رکنے کی بجائے بڑھنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہجوم کو کبھی سزا نہیں ملتی۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سنہ 1994 سے 2021 تک توہین مذہب کے الزام میں 60 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ ان میں سے کئی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوئے جبکہ درجنوں واقعات میں املاک اور عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ ان حملوں سے پہلے عام طور پر توہین مذہب کا الزام لگتا ہے تاہم یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ یہی الزام لگے۔ ایسے جن کیسز پر کارروائی ہوئی ان سے یہ ضرور طے ہوا کہ یہ الزام عام عموما جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں اور ان کی بنیاد ذاتی رنجش ہوتی ہے۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ تین دہائیوں میں پاکستان میں چھ سو سے زائد مسلمانوں، تقریباً 1500 قادیانیوں، 200 مسیحی اور ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا۔ ان میں سے کئی پرتشدد ہجوم کے حملوں کا شکار ہوئے، کچھ قید کے دوران تو کوئی عدالت کے اندر اور اس کے احاطے میں گولیوں کا نشانہ بنے جبکہ ان میں سے بیشتر اب بھی جیلوں میں قید ہیں۔ ذیلی عدالتوں کے سو فیصد فیصلے ان افراد کو قصوروار ٹھہرا رہے ہیں، جس کی وجہ وہ خوف سمجھا جاتا ہے جو ان عدالتوں میں پایا جاتا ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ ایسے کیسز کا حتمی فیصلہ اعلیٰ عدلیہ ہی کرے۔
ماضی قریب کی بات کی جائے تو 2009 میں شیخوپورہ میں ایک فیکٹری کے مالک محمد نجیب ظفر کو ایک مشتعل ہجوم نے قتل کر دیا۔حالانکہ پولیس کو واقعے سے پانچ گھنٹے پہلے اطلاع مل چکی تھی کہ مشتعل ہجوم کے حملے کا خطرہ ہے۔ نجیب ظفر کا فیکٹری کے ورکرز کے ساتھ اس وقت جھگڑا ہوا جب اس نے مبینہ طور پر ایک کلینڈر دیوار سے اتارا جس کے باعث اس پر توہینِ مذہب کا الزام لگا۔ اسی برس ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقے گوجرہ میں چھ مسیحی شہریوں کو اس زندہ جلا دیا گیا جب ایک مشتعل ہجوم نے ان کے گھروں پر حملہ کیا۔ ان سے متعلق علاقے میں توہین مذہب کی افواہ پھیلائی گئی۔ قتل ہونے والوں میں چار خواتین اور ایک بچہ شامل تھا۔ سیالکوٹ شہر میں اگست 2010 میں 18 برس کے حافظ مغیث اور 15 برس کے منیب پر اہلِ علاقہ نے ڈاکہ زنی اور قتل کا جھوٹا الزام لگا کر انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ سینکڑوں افراد کے مجمعے میں پولیس اہلکار بھی موجود تھے۔ ان محافظوں کے بیچ انھیں رسیوں سے باندھا گیا، ڈنڈوں سے اس قدر مارا گیا کہ ان کے جسم کی کوئی ہڈی سلامت نہ رہی۔ پھر ان کی لاشیں ریسکیو 1122کی عمارت کے ساتھ پانی کی ٹینکی پر لگے پائپ سے لٹکا دی گئیں مگر لاشے لٹکانے والے آج آزاد ہیں۔ 2012 میں بہاولپور کے علاقے چنی گوٹھ میں ایک شخص کو زندہ جلا دیا گیا اس پر بھی توہین مذہب کا الزام لگا اور پولیس نے اسے گرفتار کیا تاہم مشتعل ہجوم نے پولیس سٹیشن پر حملہ کیا اور ملزم کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر دیا۔ 2013 میں بادامی باغ لاہور میں مشتعل ہجوم نے عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے گھروں پر دھاوا بول دیا کیونکہ یہاں جوزف کالونی کے ایک رہائشی پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا۔ 2014 میں کوٹ رادھا کرشن میں شمع اور شہزاد نامی جوڑے کو ایک ہجوم نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ انھیں قتل کرنے کے بعد ان کی لاشیں اینٹوں کے بھٹے میں جلا دی گئیں۔2017 میں مشعال خان کو پشاور یونیورسٹی میں پرتشدد ہجوم نے قتل کر دیا۔ ان پر توہینِ مذہب کا الزام لگایا گیا۔ 2018 میں کراچی میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے 27 سال کے جگدیش کمار کو توہین مذہب کا الزام لگا کر ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ مئی 2021 میں مشتعل ہجوم نے اسلام آباد کے ایک پولیس سٹیشن پر حملہ کیا جہاں توہینِ مذہب کے الزام میں دو بھائی قید تھے۔ اسی برس اگست میں رحیم یار خان میں مشتعل ہجوم نے ایک مندر پر حملہ کیا۔ نومبر میں چارسدہ میں ایک پولیس سٹیشن کو آگ لگا دی گئی اور دسمبر 2021 میں ایک ہجوم نے توہین مذہب کا الزام لگا کر سیالکوٹ میں ایک سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کو ہلاک کر دیا گیا جس سے دنیا بھر پاکستان کی رسوائی ہوئی۔
تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ توہین مذہب کا الزام پرتشدد ہجوم کو جمع کرنے کا سب سے عام ذریعہ بنتا ہے۔ مذہب کی حرمت سے متعلق مذہبی نعروں کا سب سے زیادہ اثر صرف دیہی علاقوں کے نوجوانوں یا کم تعلیم یافتہ افراد پر ہی پر نہیں ہوا بلکہ وہ بھی ان سے متاثر ہوئے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ مشعال خان قتل نے ثابت کیا کہ صرف ایک مخصوص علاقے یا طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے ہی انتہا پسندانہ رویہ اپنایا ہو۔ ہجوم آخر قانون ہاتھ میں کیوں لیتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ماہرین کہتے ہیں کہ پُرتشدد ہجوم کی ذہنیت ایک جامع سائنس ہے، جس کے مطابق لوگ ہجُوم میں اپنے کسی بھی رویے کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ ہجوم کا حصہ بننے سے انفرادی پہچان تو ختم ہوتی ہی ہے مگر اس کے ساتھ ہی سوچنے سمجھنے کی انفرادی صلاحیت بھی دب جاتی ہے۔ ایسے میں آپ وہی کرتے ہیں جو ہجوم کر رہا ہے۔ ماہرین کے خیال میں پاکستان میں ایسے واقعات بڑھنے ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتوں پر یقین نہیں رکھتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ خود ہی قانون ہاتھ میں لے کر فوری انصاف فراہم کر دیں۔ اس حوالے سے قانون میں سقم بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت، فرسٹریشنز اور ذاتی رنجشیں اور بدلہ لینے کا آسان طریقہ ہونے کی وجہ سے ’موب وائلنس‘ کا تصور عام ہو رہا ہے جس کو روکنے کا واحد طریقہ مجرموں کو سخت ترین سزائیں دینا ہے۔

Back to top button