حکومتی اتحاد کا عمرانڈو ججز کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ


تیرہ جماعتوں پر مشتمل حکومتی اتحاد نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سمیت عمرانڈو ججز کو بے نقاب کرتے ہوئے انکے خلاف جارحانہ رویہ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ باخبر حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ حمزہ شہباز کے بطور وزیراعلیٰ الیکشن کے فوری بعد آدھی رات کو سپریم کورٹ کے دروازے کھول کر انکے خلاف تحریک انصاف کی دائر درخواست قبول کرنے کے عمل سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا سیاسی ایجنڈا صاف ظاہر ہوگیا تھا لہذا پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں نے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فل کورٹ بنانے کا مطالبہ ایک طرح سے سپریم کورٹ کے موجودہ بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار ہے جو کہ ایک بہت بڑی ڈویلپمنٹ ہے۔

یاد رہے کہ پی ڈی ایم اتحاد نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ حمزہ شہباز کی وزارت اعلی کا کیس اور اس سے متعلقہ دیگر درخواستوں کو عدالت عظمیٰ کے تمام معزز ججوں پر مشتمل فل کورٹ سنے اور ان کی ایک ساتھ سماعت کر کے اس پر فیصلہ صادر کرے۔

باخبر حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ جب سے عمر عطا بندیال چیف جسٹس آف پاکستان بنے ہیں وہ سیاسی نوعیت کے تمام تر فیصلوں کی سماعت کے لیے مخصوص عمرانڈو ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دیتے ہیں اور 99 فیصد کیسوں میں تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں۔ نواز لیگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ عمر عطا بندیال مسلسل اپنی سربراہی میں تین یا پانچ مخصوص عمرانڈو ججوں پر مبنی بینچ تشکیل دیتے ہیں جن میں نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس کا فیصلہ دینے والے جسٹس اعجازالاحسن لازمی شامل ہوتے ہیں۔ لہذا ایسی صورت حال پیدا ہو چکی ہے کہ جیسے ہی عمرانڈو ججز پر مبنی بینچ کسی بھی کیس کی سماعت کے لیے بیٹھتا ہے تو سب کو پتہ ہوتا ہے کہ کیا فیصلہ آنے والا ہے۔ چنانچہ اب اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں استعمال ہونے والے متنازعہ ججوں کے مخصوص ٹولے کو بے نقاب کرنے کا ذہن بنایا گیا ہے اور اسی لیے حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کا کیس سننے کے لیے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پی ڈی ایم کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں اس مطالبے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا گیا کہ یہ بہت اہم قومی، سیاسی اور آئینی معاملات ہیں، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام کی بھاری قیمت ملکی معیشت دیوالیہ پن کے خطرات اور عوام مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی صورت میں ادا کر رہے ہیںں۔

عمرانڈو ججز کے پرو عمران فیصلوں سے بیزار پی ڈی ایم حکمران اتحاد نے اعلامیے میں کہا ہے کہ عمران خان مسلسل سیاست میں انتشار پیدا کر رہے ہیں جسکا مقصد احتساب سے بچنا، اپنی کرپشن چھپانا اور چور دروازے سے اقتدار حاصل کرنا ہے۔ پی ڈی ایم قیادت نے کہا کہ آئین نے مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ میں اختیارات کی واضح لکیر کھینچی ہوئی ہے جسے ایک متکبر آئین شکن فسطائیت کا پیکر مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہاں آئین شکن فسطائیت کے پیکر سے مراد سابق وزیراعظم عمران خان ہیں۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ عمران دراصل پاکستان کے آئین، عوام کے حق حکمرانی اور جمہوری نظام کو بھی معیشت کی طرح دیوالیہ کرانا چاہتا ہے، یہ سوچ اور رویہ پاکستان کے ریاستی نظام کے لئے دیمک بن چکا ہے۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ جس برق رفتاری سے 22 جولائی کی رات سپریم کورٹ کے دروازے کھولے گئے اور علی الصبح کیس لگا لیا گیا اس سے صاف ظاہر ہے کہ عمرانڈو ججز کیا فیصلہ دینا چاہتے ہیں۔ چنانچہ پی ڈی ایم اتحاد نے اپنے اعلامیے میں چیف جسٹس اور ان کے ساتھی ججوں پر اظہار عدم اعتماد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں اس عزم کا واشگاف اعادہ کرتی ہیں کہ آئین، جمہوریت اور عوام کے حق حکمرانی پر ہر گز کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، ہر فورم اور ہر میدان میں تمام اتحادی جماعتیں مل کر آگے بڑھیں گی اور فسطائیت کے سیاہ اندھیروں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گی۔

دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ حمزہ شہباز کے کیس کو سننے والے ججز کا کیریئر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ ہمیشہ سے نون لیگی قیادت کے خلاف اور عمران خان کے حق میں فیصلے دیتے چلے آئے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس منیب اختر کا عمرانڈو پن کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ تینوں جج ماضی میں سابق آئی ایس آئی چیف کے مشورے اور دباو پر ایسے فیصلے دیتے رہے ہیں جن کا فائدہ عمران خان اور نقصان مسلم لیگ نون کو ہوا۔ اس لیے حکومتی اتحاد نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو پیغام دیا ہے کہ حمزہ شہباز کی وزارت اعلی سمیت تمام متنازعہ سیاسی کیسز فل کورٹ کے سامنے پیش کیے جائیں۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے بھی عمرانڈو ججز پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام متنازع سیاسی کیسز کی سماعت کے لئے بار بار چند مخصوص ججز کے بینچ بنانا ظاہر کرتا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے انصاف کا دہرا معیار بنایا جا رہا ہے۔ رانا ثناءاللہ خان نے نے میڈیا سے گفتگو کرنے کے علاوہ ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’ہماری معزز چیف جسٹس سے یہ درخواست ہے کہ ہمارے کیسز سپریم کورٹ کے فل بینچ کے سامنے رکھیں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق جن ججوں نے مسلم لیگی قیادت کے خلاف بلیک لا ڈکشنری اور قابل وصول آمدنی کے نام پر فیصلے دیے، انہیں ہمارے کیسز کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ نہیں بننا چاہیے‘۔

دوسری جانب وزیر داخلہ پنجاب عطا اللّٰہ تارڑ نے کہا ہے کہ ہم نے آئین اور قانون کے مطابق کامیابی حاصل کی، ماضی قریب میں 25 ارکان کو ڈی سیٹ کر کے ضمنی الیکشن کرائے گئے تھے لیکن اب قاف لیگ کے دس ووٹ شمار کروانے کے لئے سپریم کورٹ کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہچھلے برس سینیٹ چئیرمین کا الیکشن ہوا تو اسپیکر نے یوسف رضا گیلانی کے حق میں پڑنے والے سات ووٹ مسترد کر دیے اور یوں صادق سنجرانی چیئرمین بن گے۔ لیکن جب گیلانی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو انہیں کہا گیا کہ پارلیمانی کاروائی کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ عطا تارڑ نے کہا کہ یہ کیس ابھی تک لٹکا ہوا ہے اور اس کا فیصلہ نہیں کیا جا رہا۔ دوسری جانب جب حمزہ وزیر اعلی بنے تو سپریم کورٹ کے جج بھول گئے کہ پارلیمانی کارروائی کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا اور انہوں نے آدھی رات کو عدالت کے دروازے کھلوا کر تحریک انصاف کی درخواست قبول کر لی۔ انصاف کے اسی دوہرے معیار سے تنگ آ کر تیرہ رکنی حکومتی اتحاد مجبور ہو گیا کہ وہ سپریم کورٹ کے موجودہ تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کر دے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمرانڈو ججز فل کورٹ تشکیل دیتے ہیں یا پھر اپنا عمرانڈو پن جاری رکھتے ہیں۔

Back to top button