تھر میں مبینہ گینگ ریپ کی شکار ہندو لڑکی کی ’خودکشی‘

پاکستان کے صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں پولیس کے مطابق گزشتہ برس مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بننے والی ایک ہندو لڑکی نے خودکشی کرلی ہے جس کی وجہ اسے ملنے والی دھمکیاں اور بلیک میلنگ بتائی جا رہی ہے۔
لڑکی کی جانب سے اپنی جان لینے کا واقعہ تھر کے علاقے چیلہار گاؤں دلن جو تڑ میں پیش آیا ہے اور پولیس کا کہنا ہے کہ مذکورہ لڑکی کے والدین کی درخواست پر قتل بالسبب کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے ایک ملزم کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ لڑکی کے والد کھینرو میگھواڑ کا کہنا ہے کہ دو روز قبل رات کو وہ سو رہے تھے تو آنکھ کھلی تو ان کی بیٹی بستر پر موجود نہیں تھی، انہوں نے پڑوسیوں کو بھی جگایا اور آس پاس تلاش کیا لیکن لڑکی کے پیروں کے نشانات موجود نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بیٹی کو تلاش کرتے کرتے ملزم کے گھر کے قریب پہنچے تو وہاں انہیں لڑکی اور لڑکے کے پیروں کے نشانات ملے۔ انہوں نے گھر کا گھیراؤ کیا تو ملزم وہاں موجود تھا۔
کھینرو میگھواڑ کا کہنا ہے کہ اس وقت رات کے دو بج چکے تھے۔ اسی دوران ہم نے ایک زوردار آواز سنی جو قریبی کنویں سے آ رہی تھی۔ جب وہاں پہنچے تو باہر لڑکی کے پیروں کے نشانات موجود تھے، پھر پولیس آئی اور اس نے کنویں سے لاش نکالی۔ ایس ایچ او چیلہار مشتاق ملک کا کہنا ہے کہ لڑکی کے والدین کی مرضی کے مطابق مقدمہ درج کیا گیا ہے تاہم ان کے مطابق پولیس کو کنویں کے آس پاس لڑکی کے علاوہ کسی اور فرد کے پیروں کے نشانات نہیں ملے۔ ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کھینرو میگھواڑ سات بچوں کے والد ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال جون میں اپنی 18 سالہ بیٹی کے ریپ کا مقدمہ پولیس کی زیرِ حراست ملزم سمیت تین افراد کے خلاف درج کروایا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت کے ایس ایس پی تھرپارکر عبداللہ احمد یار نے کہا تھا کہ میڈیکل رپورٹ میں لڑکی سے ریپ کی تصدیق ہوئی ہے۔
کھینرو میگھواڑ کے مطابق پولیس نے تینوں ملزمان کو گرفتار کیا تھا لیکن انہوں نے تین ماہ کے بعد ضمانت حاصل کر لی تھی، جس کے بعد وہ دھمکیاں دیتے رہتے تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کورونا کی وجہ سے مقدمے کی سماعت نہیں ہوئی، اب 15 اکتوبر کو سماعت میں ہمارے بیانات قلمبند ہونے تھے اور لڑکی مؤقف پر قائم تھی، ان بیانات سے روکنے کے لیے لڑکی پر دباؤ ڈالا گیا اور اس نے خودکشی کرلی۔
خیال رہے کہ مدعی اور ملزمان دونوں کا تعلق ایک ہی گاؤں سے ہے۔ دلن جو تڑ گاؤں بھی تھر ان کے دیہات میں شامل ہیں جہاں ہندو اور مسلمان ساتھ ساتھ رہتے ہیں، جب کہ صحرائے تھر کی تقریباً نصف آبادی ہندو برادری سے تعلق رکھتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button