کپتان ایرانی جنرل سلیمانی کی موت پر خوش کیوں ہوئے؟


امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ حیرت انگیز دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے 2020 میں ایرانی افواج کے سپریم کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کو میرے دور حکومت کا واحد یادگار کارنامہ قرار دیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت کے حوالے سے واشنگٹن کے 2 رپورٹروں فلپ رکر اور کیرول لیوننگ نے وہائٹ ہائوس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے آخری برس کے حوالے سے I Alone Can Fix It: Donald J. Trump’s Catastrophic Final Year کے عنوان سے کتاب لکھی ہے۔ یہ دعوی اسی کتاب میں کیا گیا ہے۔ کتاب کے مصنفین کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کے بارے میں یہ ریمارکس اپنے فلوریڈا والے مکان میں ایک انٹرویو کے دوران دیے۔ فلپ رکر اور کیرول لیوننگ کے مطابق ٹرمپ نے ان کو بتایا کہ سلیمانی کی ہلاکت حیرت انگیز واقعہ تھا۔ ہم اس کے لئے ایک سال سے بھی زیادہ عرصے سے منتظر تھے۔
امریکی رپورٹروں کے مطابق صدر ٹرمپ نے بتایا کہ انھوں نے وزیراعظم عمران خان سے اس حوالے سے بات کی تھی۔ ٹرمپ نے بتایا کہ وہ عمران خان کے ساتھ ہیں، کیونکہ وہ ایک بہترین ایتھلٹ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ عمران خان کرکٹ کے جادوگر ہیں، وہ عظیم لیڈر اور خوبصورت انسان ہیں، میں ان سے کئی بار مل چکا ہوں۔ مصنفین کے مطابق ٹرمپ نے عمران خان کی تعریفیں کرتے ہوئے کہا کہ عمران نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر کہا تھا کہ یہ میری زندگی کا اب تک کا سب سے بڑا کام ہوا ہے۔ مصنفین نے اس کے بعد لکھا ہے کہ اس سے ان کی ڈرامہ کرنے اور شیخیاں بگھارنے والی خاصیت کا پتہ چلتا ہے۔
یاد رہے صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے 3 ماہ کے اندر جن افراد کو ہلاک کرنے کے احکامات جاری کئے تھے ان میں جنرل قاسم سلیمانی اور ابوبکر البغدادی شامل تھے۔ امریکی افواج نے 26 اکتوبر 2019 کو داعش کے رہنما ابوبکر البغدادی کو ہلاک کر دیا تھا۔
بعد ازاں جنوری 2020 مین بغداد ایئرپورٹ کے قریب جنرل سلیمانی کے قافلے کو ایک راکٹ سے نشانہ بنایا گیا جو ایک امریکی ڈرون سے داغا گیا تھا۔ یوں ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ سلیمانی نو دیگر افراد کے ساتھ امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ خیال رہے ایران میں رہبرِ اعلیٰ کے بعد جنرل سلیمانی سب سے بااختیار شخصیت تصور کیے جاتے تھے اور امریکہ کے سخت مخالف تھے۔ پاسداران انقلاب کی ملک سے باہر مسلح کارروائیاں کرنے والے دستوں القدس فورس کے کمانڈر ہونے کے ناطے جنرل سلیمانی مشرق وسطی میں ایران کی پالیسیوں کے روح رواں اور معمار تھے۔ القدس فورس کی حفیہ کارروائیوں کی رہنمائی کرنے، مالی وسائل اور اسلحہ فراہم کرنے کے علاوہ خفیہ معلومات مہیا کرنے اور اتحادی حکومتوں اور حزب اللہ، حماس اور اسلامی جہاد جیسی مسلح تنظیموں کی معاونت کرنے کی ذمہ دارایاں بھی جنرل قاسم سلیمانی ہی نبھاتے تھے۔
چنانچہ صدر ٹرمپ نے جنرل سلیمانی کو دنیا بھر میں اول نمبر کا دہشت گرد قرار دیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے جنرل سلیمانی پر الزام لگایا تھا کہ وہ 20 برس میں سینکڑوں امریکی شہریوں اور فوجیوں کو نشانہ بنانے، زخمی اور قتل کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
ایران کے یہ اعلی ترین جنرل 3 جنوری 2020 کو شام سے ایک جہاز کے ذریعے بغداد پہنچے تھے۔ وہ عراق میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاء تنظیموں کے سرکردہ اہلکاروں کے ہمراہ ہوائی اڈے سے باہر نکل رہے تھے جب ان کے قافلے کو ایک راکٹ سے نشانہ بنایا گیا جو ایک امریکی ڈرون سے داغہ گیا تھا۔ تب صدر ترمپ نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے اس ڈرون حملے کی منظوری دی تھی تاکہ امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ کے خطرے کو ٹالا جا سکے۔ انھوں نے جنرل سلیمانی پر الزام لگایا کہ وہ امریکی سفارت کاروں اور فوجی اہلکاروں پر حملے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اس لیے انھیں ختم کر دیا گیا۔ کام سوال یہ ہے کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کو صدر ٹرمپ کے سامنے جنرل سلیمانی کی ہلاکت پر اظہار خوشی کی کیا ضرورت پیش آئی تھی؟

Back to top button