توانائی مسائل حل کرنے میں 5 سے7 سال لگیں گے

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے   کہ توانائی مسائل کو حل کرنے میں پانچ سے سات سال درکار ہیں ، انھوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ توانائی کا شعبہ حکومت کی ‘کمزوری’ ہے اور اس شعبے کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں کم از کم 5 سے 7 سال لگیں گے۔اوور سیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت آج شعبے کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے حالانکہ یہ موجودہ حکومت کے اقدامات کا نتیجہ نہیں تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ ‘ضرورت سے زیادہ (بجلی پیدا کرنے) ہورہی ہے اور ہمیں اس بجلی کا استعمال کرنا پڑے گا’۔

شوکت ترین کے یہ ریمارکس پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دیگر رہنماؤں کی طرح تھے جو سابقہ حکومتوں پر غیر ضروری بجلی کے منصوبے شروع کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔اس الزام کو دہراتے ہوئے شوکت تارین نے نشاندہی کی کہ بجلی کی پیداوار ضرورت سے زیادہ ہے کیونکہ مختلف منصوبے شروع کیے جا چکے ہیں جنہیں بیچ راستے میں نہیں روکا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ ‘اس لیے (توانائی کے شعبے کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں) وقت لگے گا اور ہم پر دباؤ پڑے گا’۔

تاہم وزیر خزانہ نے یقین دلایا کہ وزیر توانائی اور ان کی ٹیم مسائل کو حل کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے اور اس حوالے سے پالیسی کے فیصلے آنے والے چند مہینوں میں کیے جائیں گے۔شوکت ترین نے کہا کہ اقتصادی مشاورتی کونسل نے 14 شعبوں کے لیے منصوبے بنائے ہیں جو پاکستان کے معاشی شعبے میں گزشتہ کئی سالوں سے نہیں دیکھے گئے۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘1972 کے بعد سے منصوبہ بندی ترک کر دی گئی کیونکہ پلاننگ کمیشن کو ختم کر دیا گیا تھا اور چونکہ طویل المدتی اور درمیانی مدت کے منصوبوں کی کمی تھی اس لیے پالیسیاں موثر اور مرکوز نہیں تھیں۔

شوکت ترین نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو ماہانہ اجلاسوں میں ان منصوبوں کی پیش رفت سے آگاہ کیا جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ وزارت خزانہ میں ایک سیل بھی قائم کیا جائے گا اور اجلاسوں کے انعقاد کے لیے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکانومکس کے تجزیہ کاروں کی مدد لی جائے گی۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے ٹیکس بیس کو وسیع کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ٹیکس دہندگان اور یہاں تک کہ غیر رجسٹرڈ ووٹرز کا ڈیٹا مختلف ذرائع سے اکٹھا کیا گیا ہے اور حکام اب 80 فیصد سے 90 فیصد درستگی کے ساتھ بتا سکتے ہیں کہ ان افراد کی آمدنی کتنی ہے اور انہیں کتنا ٹیکس دینا ہے۔

شوکت ترین نے کہا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرنے کی شکایات موجود تھیں اس لیے ٹیکسز کی ادائیگی اب ‘یونیورسل سیلف اسسمنٹ اور تھرڈ پارٹی آڈٹ’ کے ذریعے یقینی بنائی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ہم آڈٹ کے لیے آئی سی اے پی (انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس آف پاکستان) سے 1500 پیشہ ور افراد کی خدمات حاصل کریں گے۔وفاقی وزیر نے خبردار کیا کہ اگر ٹیکس نادہنسگان بار بار مطلع کیے جانے کے باوجود بھی ٹیکس ادا کرنے میں ناکام رہے تو انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ‘اب وقت آگیا ہے کہ جو لوگ ٹیکس نہیں دے رہے ہیں وہ ٹیکس دینا شروع کردیں کیونکہ ایسے لوگوں کی وجہ سے آپ اور میں جیسے لوگ تکلیف اٹھاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریٹیل سیکٹر سے مناسب وصولی کو یقینی بنانے کے لیے ایک نیا طریقہ کار بھی متعارف کرایا جائے گا جس کے تحت صارفین کو اس بات کی یقین دہانی کے لیے انعامات دیئے جائیں گے کہ وہ ریٹیلرز سے پکی رسیدیں اکٹھی کریں۔وفاقی وزیر نے یہ بھی اعلان کیا کہ ترسیلات زر کی حمایت کے لیے نئے پروگرام متعارف کرائے جائیں گے۔انہوں نے اعتراف کیا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ رہا ہے تاہم تاجروں کو یقین دلایا کہ حکومت ہر ہفتے صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے اور مستقبل میں حالات بہتر ہوں گے کیونکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے شعبے میں برآمدات میں اضافے کے بہت زیادہ امکانات دیکھے گئے ہیں۔

شوکت نے یہ بھی تسلیم کیا کہ مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے خاص طور پر غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ ‘بین الاقوامی قیمتوں کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیا مہنگی ہوئی ہیں کیونکہ ہم اب خوراک کے خالص درآمد کنندہ بن گئے ہیں’۔وفاقی وزیر نے کہا کہ مسائل کو حل کرنے اور زراعت کے شعبے میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔انہوں نے کراچی میں تاجروں کو یقین دلایا کہ حکومت ان کے مسائل حل کرے گی۔شوکت ترین نے کہا کہ کاروباری برادری کے مسائل کو حل کرنے کے ان کے عزم کی ایک جھلک مالی سال 22-2021 کے بجٹ میں نظر آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘بجٹ کے لیے میں نے آئی ایم ایف (بین الاقوامی مالیاتی فنڈ) کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے کاروباری برادری کے ہر فرد سے مشورہ کرنے کی کوشش کی۔ان کا کہنا تھا کہ ‘بعض اوقات میں نے ان میں سے چند کی خلاف ورزی بھی کی جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف ایک دو چیزوں پر خوش نہیں ہے تاہم میں نے پھر بھی آگے بڑھنے کی کوشش کی۔بعد ازاں تاجروں کے ساتھ ایک نشست میں ان کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ تاجروں کے ساتھ ملکر ملک کو آگے لے کر جانا چاہتے ہیں، ان کے مسائل لازمی حل کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم پیسا کمانے کو گناہ نہیں سمجھتے، یہ اچھی چیز ہے اور آپ پھر اور سرمایہ کریں پاکستان میں۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے کہنے پر بھی بجلی نہیں بڑھائی، پیٹرولیم لیوی کا پورے سال کا بجٹ 600 ارب روپے ہے اور اس وقت ہمارے خزانے میں ایک روپے بھی نہیں، لوگ سوال کرتے ہیں کہ 600 ارب روپے کب اکٹھا کیے جائیں گے تو کہتا ہوں کہ جب قیمتیں کم ہوں گی تو دیکھیں گے۔مہنگائی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی قیمتیں بلند ترین سطح پر ہیں، اس میں کمی جب تک نہیں آئے گی ہم کچھ نہیں کرسکتے۔

سمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘اب بھی ہمارے محکمے سمگلنگ کی اجازت دے رہے ہیں اسے درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر اس میں عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی چیزیں نہ خریدیں ، ان کا کہنا تھا کہ ‘اس میں منافع زیادہ ہے تاہم عوام کو بھی اس کو روکنے میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا’۔

Back to top button