آئی ایم ایف کا قرض عوام کو کتنا مہنگا پڑنے والا ہے؟

پاکستان اور آئی ایم ایف کے اسٹینڈ بائی معاہدے کے جائزے لیے مذاکرات اسلام آباد میں جاری ہیں۔ایسے میں جہاں عوام ملکی معیشت میں بہتری اور مہنگائی میں کمی کی توقعات رکھتے ہیں تو وہیں معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستانی عوام کو ابھی مزید صبر کرنا ہو گا۔ دوسری جانب نئی حکومت بننے اور وزیر اعظم شہباز شریف کے خوشحالی لانے کے دعوؤں کے بعد مہنگائی میں کمی کے خواب دیکھنے والے پاکستانی عوام کو آئی ایم ایف سے ایک نئے معاہدے کی خبروں نے پریشانی سے دوچار کر دیا ہے۔ عوام کا سوال ہے کہ کیا کہ اس رقم کے آںے سے پاکستان کے عوام کو مہنگائی سے نجات ملے گی؟ کیا ان 40 فی صد پاکستانیوں کو غربت کے اندھیروں سے نکالا جاسکے گا جن کی روزآنہ کی آمدن 3.65 امریکی ڈالر کے برابر بھی نہیں؟عوامی حلقوں میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ نئے معاہدے کے بعد مہنگائی مزید کتنی بڑھے گی یعنی عوام کو آئی ایم ایف کا قرض مزید کتنا مہنگا پڑنے والا ہے؟

اس حوالے سے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ عام آدمی کی مشکلات سے کوئی انکار نہیں اور ملک میں گزشتہ تین برسوں سے مہنگائی بڑھنے کی رفتار 25 فی صد سے بھی بلند رہی ہے۔شرح سود میں اضافے کی وجہ سے صنعتیں بند ہیں یا پھر بہت کم سطح پر آپریشنل ہیں جس سے بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور کرونا کے بعد مزید دو کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نجکاری کے عمل کو تیز کرنے کے ساتھ بجلی اور گیس کے شعبوں میں کئی ہزار ارب روپوں کی چوری اورنقصان کو کم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ تاکہ سستی بجلی اور گیس میسر آسکے۔انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ معاشی اصلاحات کے ساتھ سیاسی استحکام کی مستقل موجودگی ہی سے عام لوگوں کو کچھ ریلیف مل سکے گا ورنہ آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض سے بھی پاکستان کی مجموعی معاشی حالت اور عام پاکستانی کی حالت نہیں بدل پائے گی۔

دوسری جانب سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے بتایا کہ ’پچھلے دو سال سے افراطِ زر کی شرح 24 فی صد سے اوپر رہی۔ ایسے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مہنگائی عوام کے لیے ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے جس نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی اور اس پر قابو پانا ایک بڑا چیلنج ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’آئی ایم ایف کا مقصد مہنگائی کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف مالیاتی خسارہ اور پرائمری خسارہ ختم کرنے کا کہہ رہا ہے، جس پر حکومت متفق ہے۔’لیکن یہ کس طرح ہو گا حکومت کے پاس مہنگائی کرنے کے علاوہ کوئی پالیسی نہیں۔ حکومتی اقدامات پر اگر آئی ایم ایف مطمئن نہ ہوا تو ممکن ہے کہ حکومت کو مزید سخت فیصلے کرنا پڑیں جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو جائے۔


دوسری جانب کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے بتایا کہ ’پاکستان درآمدات پر انحصار کرنے والا ملک ہے۔ اس لیے مہنگائی اور ڈالر ریٹ کا بہت گہرا تعلق ہے۔ تاہم ’آئی ایم ایف معاہدے سے ڈالر ریٹ بڑھتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی سرکار نے آئی ایم ایف کو اس بات پر راضی کر لیا ہے کہ ڈالر ریٹ مزید نہیں بڑھنا چاہیے۔’اس لیے پچھلے آٹھ ماہ سے ڈالر ریٹ میں زیادہ اتار چڑھاؤ نہیں ہوا۔ اگر ڈالر ریٹ نہیں بڑھتا تو آئی ایم ایف معاہدے سے مہنگائی میں اتنا اضافہ نہیں ہو گا جتنا ماضی میں ہوا۔سابق حکومتی مشیر ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق آئی ایم ایف کا وفد پہلے سے طے شدہ معاہدے کے تیسرے جائزے کے لیے آیا ہے، نہ کہ نئے معاہدے کے لیے۔’اس معاہدے کے اہداف پہلے سے طے شدہ ہیں اور کافی کام بھی ہوا۔ کچھ رپورٹس پر اختلاف رائے ہے۔

ان کے مطابق: ’سٹینڈ بائے ارینجمینٹ مکمل کرنے کے لیے شاید مزید مہنگائی نہ کرنی پڑے لیکن اس کے بعد والے معاہدے کے نتیجے میں مہنگائی بڑھ سکتی ہے۔’ابھی تک بینکوں کو تمام ایل سیز کھولنے کی اجازت نہیں۔ نئے معاہدے میں آئی ایم ایف اس پر اعتراض اٹھا سکتا ہے، جس سے ڈالر ریٹ اور مہنگائی بڑھ سکتی ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’مہنگائی کا انحصار شرح سود پر ہوتا ہے۔ ایکسٹنڈڈ فنڈ فسیلٹی ہو یا نیا معاہدہ، آئی ایم ایف معاہدے میں پالیسی ریٹ کم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
تاہم سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق آئی ایم ایف کے معاہدے کے اہداف حاصل کیے جا چکے ہیں۔ بجلی اور گیس کے ریٹس بڑھا دیے گئے۔ ایف بی آر کے اہداف حاصل کر لیے گئے لہذا اس ارینجمینٹ کو مکمل کرنے کے لیے مزید مہنگائی کرنے کی ضرورت نہیں۔ نئے پروگرام اور نئے بجٹ میں کیا ہو گا اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔‘

Back to top button