کیا عمران کو سیاسی شکست دینے کے لیے جیل میں رکھنا ضروری ہے؟

تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے۔ پاکستانی سیاست دان بھی بار بار کے تجربوں اور غلطیوں کے باوجود سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت عمران خان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھ کر انہیں سیاسی شکست دینے کی کوششوں میں مصروف ہے حالانکہ یہ ناکام تجربہ عمران خان خود اپنے دور حکومت میں بھی کر چکے ہیں۔ اس کا فائدہ بہت کم اور نقصان بہت زیادہ ہوگا۔

معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری اپنی تازہ تحریر میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاستدانوں نے بس ایک ہی سبق حاصل کیا ہے کہ ماضی اور تلخ تجربات سے کچھ نہیں سیکھنا۔ پہلے احسن اقبال نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ عمران خان کو پانچ سال تک پابند سلاسل رکھنا چاہئے اور پھر رانا ثنااللہ نے فرمایا کہ حکومت کی کوشش ہو گی کہ بانی پی ٹی آئی کو جتنی دیر بھی جیل میں رکھا جا سکتا ہے، رکھا جائے۔ احسن اقبال نے عوام کے کندھوں پر بندوق رکھ کر یہ بیان داغا تھا اور کہا کہ لوگ ہمیں آ کر کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کو ترقی کرنی ہے تو عمران کو پانچ سال جیل میں رکھیں ورنہ پھر دھرنے ہونگے ،لڑائی جھگڑا ہوگا۔مگر رانا ثنااللہ نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر برملا یہ ارادہ ظاہر کیا ہے عمران کو جتنی دیر ممکن ہوا جیل میں رکھیں گے کیونکہ اس کا بیانیہ اور ایجنڈا ملک کو غیر مستحکم کرنا اور فتنہ پھیلانا ہے۔

بلال غوری کہتے ہیں آپ کو یاد ہوگا کہ جب عمران خان نے 18 اگست 2018ء کو بطور وزیراعظم حلف اُٹھا یا تو نوازشریف اور مریم نواز سمیت مسلم لیگ(ن)کے کئی رہنما جیلوں میں تھے۔حکومت سازی کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد جعلی مقدمات بنانے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ۔شہبازشریف ،حمزہ شہباز ،خواجہ سعد رفیق ،رانا ثنااللہ ،احسن اقبال،شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل سمیت کئی سیاسی مخالفین کو گرفتار کرلیا گیا۔تمام تر سہولت کاری کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت چل نہیں پارہی تھی ۔اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لئے کہا جاتا تھا کہ اپوزیشن کے پیدا کردہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے مسائل حل نہیں ہورہے ۔لاڈلی حکومت کے ناز نخرے اُٹھانے والوں نے ہر اس شخص کو اٹھا کر جیل میں ڈال دیا جس کی وجہ سے کسی قسم کی پریشانی لاحق ہوسکتی تھی۔نجی ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز، اخبارات میں شائع ہونے والے کالم ،یہاں تک کہ یوٹیوب کی ویڈیوز اور ٹویٹس تک حذف کروائی جاتی تھیں۔

بتانے کا مقصد یہ تھا کہ کس طرح اپوزیشن اور میڈیا کی طنابیں کس کر حکومت کو سازگار ماحول فراہم کرنے کی کوشش کی گئی مگر معاملات جوں کے توں رہے۔

تحریک انصاف کا عدت میں نکاح کیس کا فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان

بلال غوری کہتے ہیں کہ رانا ثنااللہ کو تو محض اس لئے جھوٹا مقدمہ بنا کر گرفتار کیا گیا کہ وہ نواز شریف کو مفاہمت کے بجائے مزاحمت پر اُکسانے والوں میں شامل تھے ۔حکومت کی طرف سے پہلے یہ خواہش ظاہر کی گئی کہ نوازشریف کسی صورت جیل سے باہر نہ آنے پائے کیونکہ اس کے رہا ہونے سے حالات خراب ہوجائیں گے ۔پھر کچھ عرصہ بعد یہ فرمائش کی گئی کہ نوازشریف کو علاج کے لئے بیرون ملک جانے پر رضامند کیا جائے کیونکہ اس کے جیل میں ہونے کی وجہ سے حالات معمول پر نہیں آرہے ۔چنانچہ نوازشریف کو اس شرط پر لندن جانے کی اجازت دیدی گئی کہ وہ کچھ عرصہ خاموش رہیں گے ۔لیکن یہ مرحلہ شوق طے ہوجانے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کوئی جادو دکھانے میں ناکام رہی کیونکہ مرض کی تشخیص ہی درست نہیں کی گئی تھی۔حالات ٹھیک نہ ہونے کی وجہ حکومت کی اپنی ناقص کارکردگی تھی ۔احسن اقبال اور رانا ثنااللہ کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ اب موجودہ حکومت بھی اسی طرح کے مغالطوں کا شکار ہوچکی ہے۔ان کا خیال ہے کہ ملکی مسائل کا حل عمران خان کو قید رکھنے میں ہے۔ان کے باہر آنے کی صورت میں سیاسی حدت بڑھے گی ،یہ خدشات بھی بے جا نہیں کہ عمران خان کے رہا ہونے کی صورت میں ان کے پیروکاروں کو نیا عزم و حوصلہ میسر آئے گا۔

لیکن بلال غوری کہتے ہیں کہ عمران خان کا مقابلہ سیاست کے میدان میں کیا جانا چاہئے ۔آپ تحریک انصاف کے بیانئے کے مقابل جوابی بیانیہ لیکر آئیں ۔انکے پروپیگنڈے کوحکومتی کارکردگی سے شکست دیں۔ فرض کریں ،ایک کے بعد دوسرا مقدمہ بنا کر پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کو جیل میں رکھنے کا اہتمام جاری رہتا ہے ، لیکن یہ بندوبست کتنا عرصہ چل پائے گا؟ایک سال ،دو سال ،تین سال ،زیادہ سے زیادہ پانچ سال ۔جب آپ کی حکومت ختم ہوگی تب توقیدی نمبر 804 کو رہا کرنا ہی پڑے گا ۔تب کیا ہوگا؟ اگر تب اس نے باہر آ کر آپ کی ساری انتخابی مہم پلٹ دی ،آپ کے سیاسی بیانیے کو ہی شکست دیدی تو کدھر جائیں گے؟آپ نے کبھی پریشر ککر میں کھانا بنتے دیکھتا ہے ،جب اچانک ڈھکن اُٹھاتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟اگر لاوا پکتا رہے ،دہکتا رہے تو اچانک پھٹ جانے کے بعد کیسی تباہی و بربادی لاتا ہے؟

Back to top button