’’لائی لگ‘‘ قوم!

’’لائی لگ‘‘ قوم!

تحریر:عطا الحق قاسمی۔۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ جنگ
میراایک کینیڈا میں مقیم سابق پائلٹ بھانجا عابد پیرزادہ بال بچے دار ہوگیا ہے لیکن جوانی میں بہت شرارتی ہوتا تھا وہ جب شرارت کے موڈ میں ہوتا تو سڑک کے ایک کنارے پر خود کھڑا ہو جاتا اور دوسری طرف کسی دوست کو کھڑا کرکے یہ دونوں اسی طرح پوز کرتے جیسے ان کے ہاتھ میں فیتہ ہے اور وہ پیمائش لے رہے ہیں اس دوران کوئی راہ گیر ادھر سے گزرتا تو وہ صرف ان کے ہاتھ اونچا نیچے ہونے سے اندازہ لگاتا کہ ’’فیتہ‘‘ کہاں ہے چنانچہ وہ اپنی ٹانگ ان ہاتھوں کی بلند ی پر لے جاتا اور فیتے پر سے پھلانگ کر دوسری طرف چلا جاتا۔ کئی سائیکل سوار سائیکل سے اتر جاتے اور سائیکل دونوں ہاتھوں میں تھام کر ’’فیتہ‘‘ کراس کرتے اور عابد ان سادہ لوحوں کی یہ حرکتیں دیکھ کر جب ہنسنے لگتا تو انہیں پتہ چلتا کہ اس فیتے کا تو کہیں نام و نشان نہیں ہے جسے وہ پھلانگ رہے تھے۔

عابد ایک حرکت اور کرتا تھا جہاں بہت سے لوگ کھڑے ہوتے یہ ان کے درمیان جا کھڑا ہوتا اور کسی ایک شخص کی قمیص کے کالر کو اپنی انگلی سے جھاڑتا، وہ شخص پوچھتا کہ کیا مسئلہ ہے عابد کہتا کچھ نہیں ایک کیڑا تھا مگر وہ تمہاری گردن کی طرف چلا گیا ہے اس پر اس شخص کو وہ کیڑا اپنی گردن پر رینگتا محسوس ہوتا جس کا وجود ہی کوئی نہیں ہوتا تھاچنانچہ عابد اس کی قمیص اتروا دیتا، اس کے بعد بنیان۔ ایک دفعہ تو ایک شخص کے جسم پر صرف انڈر ویئر رہ گیا تھا اور وہ کیڑے کی تلاش میں بھاگ کر ایک دکان کے واش روم میں داخل ہوگیا تھا۔ یہ منظر تو میرے اس کھلنڈرے بھانجے نے مجھے بھی دکھایا کہ بھاگو بھاگو کہتے ہوئے اس نے ایک سمت بھاگنا شروع کردیا اور وہاں کھڑے سب لوگ اندھا دھند اس طرف بھاگنا شروع ہوگئے۔

یہ ہماری قوم کی نفسیات ہے ہم اندھا دھند دوسروں پر یقین کر بیٹھتے ہیں اور اکثر اوقات اپنی عقل سے کام نہیں لیتے ہم ’’لائی لگ‘‘ قوم ہیں، اللہ جانے لائی لگ کو اردو میں کیا کہتے ہیں اس کی عملی صورت یہ ہے کہ ہر کام ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی کرتے ہیں۔ ایک چوک میں تین چار لوگ ایک شخص کو پیٹ رہے تھے پتہ چلا کہ اس شخص نے ایک عورت کو چھیڑا ہے اسے پیٹنے والوں میںا یک عورت کا شوہر ایک عورت کا بھائی اور ایک اس کا دیور تھا، چوتھے شخص سے کہا گیا کہ ان لوگوں کا پیٹنا تو سمجھ میں آتا ہے تم اسے کیوں مار رہے ہو، اس نے کہا میں ادھر سے گزر رہا تھا یہ لوگ اسے زدو کوب کر رہے تھے میں نے سوچا آخر تین شریف آدمی ایک شخص کو ماررہے ہیں تو بلاوجہ تو نہیں مار رہے ہوں گے چنانچہ میں بھی ان کے ساتھ شریک ہوگیا۔

انسانوں کو گمراہ کرنا باقاعدہ ایک سائنس ہے جس کے لئے بقول شخصے ملٹی نیشنل کمپنیاں بہت سے ’’ہنرمندوں‘‘ کو اپنے پے رول پر رکھتی ہیں اور کچھ ’’پیرول‘‘ پر ہوتے ہیں ہمارے ہاں بھی اس علم کے بڑے بڑے سائنس دان موجود ہیں۔کبھی اسلام کے نام پر ان پر حکومت کی جاتی ہے کبھی سیکولرازم کے حوالے سے انہیں رام کیا جاتا ہے اور کبھی احتساب کے نعرے پر لوگ بیوقوف بنتے ہیں۔ایک دفعہ ایک چور کا انٹرویو ایک اخبار میں شائع ہوا تھا اس نے کہا اگر گھروالوں کو گھر میں چور کی موجودگی کا علم ہو جائے اور وہ چور چور کہہ کر محلے والوں کو اکٹھا کر لیں تو خود چور گھر سے باہر نکل کر چور چور کہتا ایک طرف دوڑنا شروع کر دیتا ہے اور پھر یہ مجمع چور کی بتائی ہوئی سمت کی طرف دوڑنا شروع کر دیتا ہے اور چور آرام سے کسی اور طرف نکل جاتا ہے یہ چور بھی یقیناً کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے پے رول پر ہو گا۔

کسی ’’لائی لگ‘‘ شخص سے کسی نے کہا بھیڑیا تمہارا کان کاٹ کر لے گیا ہے اس نے اپنے کان چیک کئے بغیر باقی عمر اس بھیڑیئے کی تلاش میں صرف کر دی جو اس کا کان لے گیا تھا ۔ہم بھی ہر دور میں اپنے دشمنوں کی تلاش میں ایک ایسی سمت نکل جاتے ہیں جو تباہی کی طرف لے جانے والی ہوتی ہے ہمیں رستہ دکھانے والے ہمیں انصاف دلانے والے بڑے بڑے لوگ ہوتے ہیں چنانچہ ہم اپنے فیصلے ان سے عقل مستعار لے کر کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج 2024ءکا پاکستان 1950ء کے پاکستان سے بھی پیچھے چلا گیا ہے کسی دوسرے کی دانش پر اعتبار نہ کریں صرف اپنی دانش کو اپنا رہنما بنائیں اگر کوئی کہے کہ کوئی آپ کا کان کاٹ کر لے گیا ہے تو کان چیک کئے بغیر اس کی بات کا اعتبار نہ کریں کیونکہ ممکن ہے یہ بات کہنے والا آپ کا دوست نہیں دشمن ہو!

آخر میں جاوید صبا کی ایک خوبصورت غزل:

ایڑھیوں پر کھڑا ہوا ہوں میں

آگے کھائی ہے پیچھے دلدل ہے

یہ مرے لوگ ہیں کہ وحشی ہیں

یہ مرا شہر ہے کہ جنگل ہے

آگ کرتی ہے فیصلہ کہ کوئی

چوب صحرائی ہے کہ صندل ہے

دل کی بنتی نہیں دماغ کے ساتھ

ایک مجذوب ایک پاگل ہے

شاعرانہ سا حسن ہے اس کا

ایک مصرع ہے اور مکمل ہے

کاسنی سی ہنسی ہے ہونٹوں پر

اس کی آنکھوں میں سرخ کاجل ہے

آس باقی ہے اس کے ملنے کی

ابھی تنہائی نامکمل ہے

دل کہ رہتا ہے ڈوبا ڈوبا سا

اور یہ کیفیت مسلسل ہے

عشق پردے میں ہو تو بے پردہ

حسن محمل میں ہو تو مہمل ہے

ایک ہی لے ہے آخری سر تک

ایک ہی سر ہے اور وہ کومل ہے

اس سے مل کر بہت خوشی تو ہوئی

بس طبیعت ذرا سی بوجھل ہے

Check Also
Close
Back to top button