چیف جسٹس کو دھمکی پر حکومت سٹینڈ لے گی یا گھٹنے ٹیکے گی؟

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو قتل کی کھلی دھمکی دینے والے تحریک لبیک کے ایک مرکزی لیڈر کو گرفتار تو کر لیا گیا ہے لیکن عوامی حلقوں میں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا ماضی کی طرح ایک مرتبہ یہ معاملہ بھی ٹی ایل پی سے مذاکرات پر ختم تو نہیں ہو جائے گا. یاد رہے کہ لاہور پولیس نے شدت پسند مذہبی جماعت تحریکِ لبیک کے مرکزی نائب صدر ظہیر الحسن کے خلاف چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو دھمکی دینے اور مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ درج کرتے ہوئے اسے گرفتار کیا ہے جس کے بعد ٹی ایل پی کی جانب سے احتجاج کی دھمکی دی گئی ہے. ایک حکومتی ترجمان نے واضح کیا ہے کہ چیف جسٹس کو دھمکی دینے والے کا پورا احتساب کیا جائے گا لیکن عوامی حلقے کہتے ہیں کہ ماضی میں جب بھی حکومت اور ٹی ایل پی کا پنگا پڑا ہے, گھٹنے حکومت نے ہی ٹیکے ہیں لہذا سوال یہ ہے کہ کیا اس مرتبہ بھی ٹی ایل پی کو واک اوور مل جائے گا یا حکومت کھڑی رہے گی.

عمران کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے امکانات کیوں روشن ہو گئے ؟

ٹی ایل پی کے ترجمان نے بتایا کہ ظہیر الحسن کو اوکاڑہ سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تاہم لاہور پولیس کی جانب سے ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ لاہور کے تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں درج ہونے والی ایف آئی آر کے متن کے مطابق ظہیر الحسن نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف لوگوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی۔ مقدمے میں انسدادِ دہشتگردی ایکٹ، مذہبی منافرت، فساد پھیلانے، عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی دفعات کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدلیہ کو دھمکی، کارِ سرکار میں مداخلت اور قانونی فرائض کی انجام دہی میں رُکاوٹ ڈالنے سے متعلق دفعات شامل کی گئی ہیں۔ایک ویڈیو میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ ٹی ایل پی رہنما ظہیر الحسن ایک اجتماع کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف دھمکی آمیز تقریر کر رہے ہیں۔ 6 فروری 2024 کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے توہینِ مذہب کے الزام میں قید ایک شخص کو رہا کرتے ہوئے اس کے خلاف درج ایف آئی آر سے توہینِ مذہب کی دفعات 298C اور 295B حذف کرنے کا حکم دیا تھا. ٹی ایل پی سمیت متعدد مذہبی جماعتیں اس فیصلے کے خلاف گذشتہ کئی دنوں سے احتجاجی ریلیاں نکال رہی ہیں۔

دوسری جانب سپریم کورٹ نے ایک پریس ریلیز میں کہا تھا کہ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر اس فیصلے کی غلط رپورٹنگ کی گئی ہے جس سے غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں اور ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے سپریم کورٹ نے دوسری آئینی ترمیم میں مسلمان کی تعریف سے انحراف کیا ہے۔‘

اس حوالے سے مرکزی حکومت کی جانب سے بھی ردِعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ’ہم کابینہ کی جانب سے سب کو بتانا چاہتے ہیں کہ ریاست کسی کو قتل کے فتوے جاری کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ خواجہ آصف نے ٹی ایل پی کے رہنما کی تقریر کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر عدلیہ آئینی معاملات پر فیصلے دے رہی ہے تو اس میں دھمکی دینے کی کوشش کو ناکام بنایا جائے گا، ملک میں آئین کی حکمرانی اور انصاف کا بول بالا ہونا چاہیے۔‘

وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال نے ٹی ایل پی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ وہ طبقہ ہے جنھیں 2017 اور 2018 میں سیاسی ایجنڈے کے تحت کھڑا کیا گیا تھا۔‘ خیال رہے کہ 2018 میں پولیس کے مطابق ٹی ایل پی کی حمایت کرنے والے ایک شخص نے احسن اقبال پر حملہ کیا تھا جس میں وہ زخمی ہوئے تھے۔

یہ پہلا موقع نہیں جب ملک میں ٹی ایل پی کی سرگرمیوں پر حکومت نے اعتراض اُٹھایا ہو۔ ماضی میں بھی حکومتیں مذہبی جماعت کے خلاف کارروائی کا عندیہ دے چکی ہیں لیکن ہر بار ٹی ایل پی کے احتجاج کی صورت میں پاکستانی حکام کو ان کے مطالبات ماننے پڑے ہیں۔ اس کی سب سے تازہ مثال رواں ماہ کا دھرنا ہے جس پر حکومت نے ان سے اسرائیلی اشیا کے بائیکاٹ پر مذاکرات کیے۔

خیال رہے 2017 میں ٹی ایل پی نے مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں فیض آباد پر دھرنا دیا تھا۔ مذہبی جماعت نے اس وقت کے وزیرِ قانون زاہد حامد پر الزام لگایا تھا کہ انھوں نے اراکینِ پارلیمنٹ کے حلف نامے میں تبدیلی کی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ٹی ایل پی کے کارکنان کے درمیان تقریباً دو ہفتوں تک جاری جھڑپوں کے بعد یہ دھرنا اس وقت ختم ہوا جب پاکستانی حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان آئی ایس آئی کی ثالثی میں مذاکرات ہوئے اور وزیرِ قانون زاہد حامد نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عمران خان کی پی ٹی ائی کی طرح ٹی ایل پی بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق ہے اور اس کا دھرنا شروع ہو یا ختم ہو دونوں کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ کار فرما ہوتا ہے.  لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پی ٹی ائی کی طرح ٹی ایل پی بھی اب فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کہنے میں اس طرح نہیں جیسے ماضی میں ہوا کرتی تھی.

ماضی میں ن لیگ کے متعدد رہنماؤں نے الزامات عائد کیے تھے کہ ٹی ایل پی کو اس وقت کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے جماعت کے ووٹ بینک کو توڑنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ ٹی ایل پی متعدد بار اس الزام کی تردید کر چکی ہے۔اس کے بعد 2021 میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت نے ٹی ایل پی پر انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کے تحت پابندی عائد کی تھی۔ تاہم تقریباً سات مہینوں بعد پُرتشدد احتجاجی مظاہروں کے نتیجے میں پاکستانی حکومت کو پابندی کا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ اپنے قیام کے بعد ٹی ایل پی دو عام انتخابات میں حصہ لے چکی ہے اور ملک کی ایک بڑی مذہبی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ گیلپ کے انتخابی تجزیے کے مطابق سنہ 2018 کے عام انتخابات میں ٹی ایل پی نے تقریباً 22 لاکھ، جبکہ 2024 کے انتخابات میں تقریباً 28 لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے۔ ٹی ایل پی کے رہنماؤں کی تقریریں اور دھرنے متعدد بار پاکستان میں موضوع بحث رہے ہیں۔ ظہیر الحسن کی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تقریر کے بعد ایک بار پھر لوگ نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقاریر کے معاملے پر پاکستانی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ٹی ایل پی رہنما کی چیف جسٹس مخالف وائرل ویڈیو کی مذمت کی جا رہی ہے۔ ’ایکس‘ پر ایک صارف نے لکھا کہ ’آخر مذہب کو ہتھیار بنا کر کب تک ریاستِ پاکستان کو یرغمال بنایا جاتا رہے گا؟ اگر فیصلے سے اختلاف ہے تو چیلنج کریں۔ سیدھا سیدھا دھمکانا، یہ کہاں کا دین ہے؟‘

وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف اشتعال انگیز اور دھمکی آمیز تقریر کے معاملے پر گرفتاریاں بھی ہوں گی اور حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں حکومتیں ٹی ایل پی کے خلاف ایکشن لینے سے گریزاں نظر آتی ہیں کیونکہ متعدد بار یہ گروہ ثابت کر چکا ہے کہ اس کے پاس سڑکوں پر لوگوں کو جمع کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ٹی ایل پی والوں نے بار بار ثابت کیا ہے کہ وہ ملک بھر میں طاقت رکھتے ہیں، متعدد مرتبہ اس تنظیم نے سڑکوں پر اپنے حامیوں کو بڑی تعداد میں نکالا ہے، احتجاج کیے ہیں اور دھرنے دیے ہیں۔‘

پاکستانی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’ٹی ایل پی ایک عسکری تنظیم تو نہیں ہے لیکن اس میں کچھ ایسی علامات ضرور نظر آتی ہیں جو کہ منظم عسکری تنظیموں میں نظر آتی ہیں۔ ان کے مطابق ٹی ایل پی کے طاقتور ہونے کی سادہ وجہ تو توہینِ مذہب کے حوالے سے اس گروہ کے نظریات ہیں، لیکن یہ اس جماعت کے مقبول ہونے کی واحد وجہ نہیں۔‘ ان کے مطابق ’متعدد کمزور تنظیمی ڈھانچوں والی جماعتوں کے بیچ میں ٹی ایل پی ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جو کہ کافی منظم ہے۔‘ خیال رہے ٹی ایل پی کا تعلق بریلوی مکتبہ فکر سے ہے جس میں یہ احساس تیزی سے بڑھ رہا تھا کہ ملک میں ان کی جگہ دیوبندی اور اہل حدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی تنظیموں نے لے لی ہے اور ٹی ایل پی اس احساس محرومی کا فائدہ اُٹھانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ کہیں ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر حکومت وقت ٹی ایل پی کی سٹریٹ پاور کے سامنے گھٹنے تو نہیں ٹیک دے گی.

Back to top button