9 مئی کے حملوں سے پہلے فیض نے عمران کو 603 پیغامات میں کیا کہا؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے انکشاف کیا ہے کہ 9 مئی 2023 کو ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملوں سے پہلے تحریک انصاف کے چیف منصوبہ ساز کی حیثیت سے کام کرنے والے سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے آج کے قیدی نمبر 804 عمران خان کو 603 پیغامات بھیجے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ریٹائرڈ جرنیل اپنے ذاتی مفاد کےلیے پی ٹی آئی والوں کو فوج سے لڑوا رہا تھا اور اس کے تحریک انصاف کے 38 رہنماؤں سے رابطے تھے جنہیں وہ براہ راست ہدایات دیتا تھا۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس دوران سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اپنے سابقہ باس جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی بے وقوف بناتا رہا۔ جنرل باجوہ کے قریب سمجھے جانے والے ایک سیاستدان نے انکشاف کیا ہے کہ جنرل فیض حمید کی جانب سے جنرل عاصم منیر کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کرانے اور الزامات لگوانے کی سازش بھی اب مکمل طور پر بے نقاب ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے جنرل باجوہ کو بھی حاصل کردہ سارا مواد دکھا دیا گیا ہے جس کے بعد اب وہ جنرل فیض کے مدد گار نہیں رہے۔ سہیل وڑائچ افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارا پاکستان فیض حمید جیسے لوگوں کی وجہ سے تضادستان بن چکا ہے جہاں دنیا کو آگے لے جانے والے لوگ اب دور دور تک نظر نہیں آتے۔ ہمارے سیاست کے فیصلوں کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے ہم احمقوں کی جنت میں آ گئے ہیں، ایسے ایسے بے وقوفانہ فیصلے کیے جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ تحریک انصاف کی سیاست احمقانہ فیصلوں کی بہترین مثال ہے جس میں لیڈر سے لے کر کارکن تک چاہتا ہے کہ فوج اور تحریک انصاف کے درمیان صلح ہو جائے تاکہ عمران خان کو کچھ ریلیف مل سکے، مگر 8 ستمبر کے اسلام اباد جلسے میں جو حکمت عملی اختیار کی گئی اس سے تو فوج سے تلخی اور بھی بڑھ گئی یے، اور مصالحت کے راستے بھی مسدود ہو گئے ہیں۔ اگر تحریک انصاف کی عینک سے دیکھا جائے اور ان کا سیاسی مفاد مدنظر رکھا جائے تو حالیہ مہینوں میں اس نے اپنی حریف نون لیگ کو سب سے زیادہ پریشان تب کیا جب اس نے 22 اگست کا جلسہ ملتوی کیا، اس فیصلے سے نونیوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کہ صبح سات بجے خان سے ملاقات کے لیے جیل کے دروازے کس طرح کھل گئے، نون لیگ والے پریشان تھے کہ فوج کے ساتھ جلسہ ملتوی کرنے کی ڈیل کیوں اور کیسے ہوئی؟

مولانا حکومت اور اپوزیشن کیلئے اتنے خاص کیوں ہو گئے؟

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اگر تحریک انصاف والے عقل سے کام لیتے تو وہ اسی بیانیے کو آگے بڑھاتے اور اپنے مخالفوں کو کارنر کرتے، مگر 8 ستمبر کے جلسے میں گنڈاپور نے جو جارحانہ زبان فوج کے بارے میں استعمال کی اس سے پی ٹی آئی کی سیاسی برتری پھر سے صفر ہو گئی بلکہ منفی درجوں میں چلی گئی۔ تاہم دوسری طرف ریاست چلانے والے فیصلہ ساز بھی احمقوں کی جنت میں نہلے پر دہلا مار رہے ہیں، تحریک انصاف کے جلسے میں استعمال ہونے والی زبان پر ہر طرف سے تنقید ہوئی مگر دوسرے ہی دن فیصلہ سازوں نے پارلیمان پر چھاپہ مار کر جو بلنڈر مارا وہ تحریک انصاف سے بھی بڑی حماقت تھی۔ اس فیصلے کے بعد ہر توپ کا رخ فیصلہ سازوں کی طرف ہو گیا اور علی امیں گنڈا پور جیسے بھی مظلوم لگنے لگے۔ دونوں طرف کے ایسے بے وقوفانہ فیصلوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ عقل کے اندھے بحران کو حل ہی نہیں ہونے دے رہے۔ دونوں طرف کے احمق فیصلے ہی ایسے کر رہے ہیں جس سے کوئی حل نکل ہی نہیں پا رہا۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ہمارے تضادستان کے سیاستدانوں اور فیصلہ سازوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ خود کو "عقل کل” سمجھتے ہیں۔ معروف فلاسفر اور ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر کے مطابق ہر احمق سمجھتا ہے کہ وہ عقل مند ہے لیکن عقل مند شخص ہمیشہ خود کو بے وقوف سمجھنا چاہتا ہے۔ اگر آج کے دور میں شیکسپیئر کا عقل مند فول آ جاتا تو وہ تحریک انصاف سے ضرور پوچھتا کہ کس احمق فول نے آپ کو جلسے میں انتہا پسندانہ رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا؟ کیا اس کا عمران خان کو فائدہ ہوا ہے یا نقصان؟ کیا اس سے ان کی سیاست میں بہتری آئی ہے یا بدتری؟ مگر تضادستان احمقوں کی اصل جنت ہے اس لئے پارٹی کے اندر کوئی بھی سیاسی نفع یا نقصان کا تجزیہ پیش نہیں کرے گا اور نہ ہی پارٹی اپنی غلطیوں سے سیکھ کر اپنی اصلاح کرے گی۔ احمقوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہوتی ہے کہ وہ خود کو عقل مند اور دوسروں کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔ اب دوسری طرف ریاست اور حکومت چلانے والوں کا لیول چیک کریں کہ تحریک انصاف کی طرف جاتے تیر کو انہوں نے اپنی طرف موڑ لیا۔ پارلیمان سے ایم این ایز کی گرفتاری نے علی امین گنڈا پور کی دھمکیوں کو بھلا دیا اور اراکین پارلیمنٹ کی گرفتاریوں کو ہائی لائٹ کر دیا۔ اس بے وقوفی کی حرکت نے پارلیمان کی سب جماعتوں کو اکٹھا کر دیا۔ سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ مجھ جیسے بلڈی فول سویلین کو بھی علم ہے کہ یہ سوال نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کون عظیم عقل مند اور دانش ور ہے جس نے پارلیمان پر چھاپہ مارنے کا حکم دیا تھا۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ آج کی دنیا عقل کی دنیا ہے۔ عقل نے ہی ٹیکنالوجی کو جنم دیا ہے۔ پچھلے زمانوں میں وحشی طاقت خے زور پر جنگیں جیت کر تہذیبوں کو پامال کر دیا کرتے تھے۔ لیکن آج کی مہذب دنیا میں اب عقل وحشیوں کو ایک بٹن دبا کر تباہ کر دیتی ہے۔ کاش ہمارے اہل سیاست اور اصل فیصلہ ساز حماقتوں سے لبریز فیصلے کرنے سے باز آ جائیں اور عقل، دانش اور منطق سے کام لینا شروع کریں تاکہ آج کا تضادستان دوبارہ سے جناح کا پاکستان بن سکے۔

Back to top button