عمران کے ایماء پر گنڈا پور ایک اور 9 مئی برپا کرنے کو تیار

عمران خان نے ملک میں انتشار اور بدامنی پھیلانے کی ایک اور خفیہ سازش تیار کر لی ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے 9 مئی جیسی ایک اور کارروائی ڈالنے کا حکم دے دیا ہے اور اس بار ان شرپسندانہ کارروائیوں کی کمان وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے سپرد کر دی ہے۔ اس خفیہ سازش کا عملی مظاہرہ پی ٹی آئی کے 8ستمبر کے اسلام آباد میں ہونے والے جلسہ عام میں بھی دیکھنے میں آیا جب علی امین گنڈاپور نے صرف اعلان بغاوت ہی نہیں کیا بلکہ پنجاب اور وفاقی دارالحکومت پر یلغار کی دھمکی کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کے برخلاف افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کا اعلان کر دیا۔ جس پر بانی پی-ٹی-آئی عمران خان نے سرزنش کرنے کی بجائے وقت ضائع کئے بغیر اعلان بغاوت کی حمایت کرتے ہوئے پیغام دیا کہ’’ہم سب گنڈاپور کے ساتھ ہیں‘‘۔

تاہم مبصرین کے مطابق عمران خان نے گنڈاپور کو اپنی انتشاری مہم کا سربراہ تو بنا دیا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ جلسہ سے خطاب کے بعد’’بہادر وزیراعلیٰ‘‘ اچانک موبائل فون سمیت رابطوں کے تمام ذرائع منقطع کرکےمنظر سے غائب ہوگئے اور 8گھنٹوں تک مقتدر قوتوں سے اپنے جطاب پر معافیاں مانگتے رہے۔کیونکہ وزیراعلیٰ گنڈاپور اپنے قائد کو خوش کرنے کے لئے فرط جذبات میں اپنے کپڑوں سے نکل گئے تھے اور انھوں نے ریاست کے خلاف بغاوت کے اعلان سے بھی گریز نہیں کیا تھا لیکن جب انہیں حالات کی نزاکت کا احساس ہوا تو انھوں نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے کوہی ترجیح دی۔ تاکہ جان خلاصی ہو سکے۔ وزیراعلیٰ کی پراسرار گمشدگی کے دوران سیاسی حلقوں میں یہ تاثر بھی قائم ہوا کہ گنڈاپور اپنے خلاف ممکنہ بغاوت کے الزام میں معذولی اور گرفتاری سے بچنے کے لئے عسکری قیادت سے ملاقات اور معافی تلافی کے لئے ان کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ مبصرین کے مطابق اگرچہ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ علی امین گنڈاپور کے بانی پی-ٹی۔آئی کے حکم پر عسکری قیادت کے ساتھ رابطے قائم تھے اور انہی کے ذریعے گاہے بگاہے ان سے بات چیت ہوتی تھی یہی وجہ ہے کہ جلسے کے بعد لاپتہ ہونے سے تاثر اجاگر ہوا کہ گنڈاپور اسٹیبلشمنٹ سے ہی ملنے گئے ہیں لیکن تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے حسب عادت موقع کو غنیمت جانتے ہوئے حکومت پر الزام عائد کردیاکہ گنڈاپور کو ایجنسیوں نے اٹھا لیا ہے لیکن انہیں اس وقت خفت اٹھانا پڑی جب گنڈاپور وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور پہنچ گئے۔

مبصرین کے مطابق عمران خان کے لا ابالی اور جذباتی رویے نے جہاں اس ملک کو سیاسی، معاشی، معاشرتی اور سلامتی کے بحرانوں کے بھنور میں پھنسا دیا ہے وہیں عمرانڈو ججز کی جانب سے بعض متنازع فیصلوں کی وجہ سے قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے لاغر اور کمزور ہو کر رہ گئے ہیں جس کے نتیجے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو قانون نافذ کرنے اور ریاستی اداروں کیخلاف برسر پیکار یوتھیوں کو گرفت میں لانے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ریاست پاکستان، بانی پی-ٹی-آئی عمران خان اور ان کے اشاروں پر چلنے والے پارٹی رہنمائوں اور سیاسی پارٹیوں کی جانب سے پیدا کئے جانے والے سیاسی اور آئینی بحرانوں سے نکلنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے لیکن اپنے مقررہ آئینی اختیارات سے تجاوز کرنے والے اداروں کا کردار اس معاملے میں بڑی رکاوٹ قرار دیا جا رہا ہے۔

مبصرین کے مطابق حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ آج بانی پی ٹی آئی اور تحریک انصاف شیخ مجیب الرحمٰن کو مجبِ وطن قرار دے رہے ہیں اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر پر الزام تراشیاں کر رہے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن کے خلاف اگرتلہ سازش کیس حقیقت پر مبنی تھا لیکن ایوب خان کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک کی وجہ سے مجیب الرحمٰن کو رہائی نصیب ہوئی۔عوامی تحریک کے نتیجہ میں ایوب خان کو رخصت ہونا پڑا تو اقتدار اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کرنے کے بجائے جنرل آغا محمد یحییٰ خان کو سونپ دیا۔ جنرل صاحب نے 1970 میں عام انتخابات کرائے لیکن سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار سونپنے کے بجائے فوج کے ذریعہ مشرقی پاکستان پر فوجی قبصہ مضبوط کرنے کی کوشش کی۔جب عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہ کیا گیا تو بنگلہ دیش میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ بھارت کیونکہ موقع کی تلاش میں تھا اس نے مکتی باہنی کی آڑ میں اپنی فوج مشرقی پاکستان میں داخل کر کے اس پر قبصہ کر لیا۔ بنگلہ دیش تو بن گیا لیکن مجیب کا کیا حال ہوا؟ بنگلہ دیش کے بانی کو پورے خاندن کے ساتھ اپنی ہی فوج نے گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ مجیب کی دو بیٹیاں حسینہ اور ریحانہ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے بچ گئیں۔اسے تاریخ کی ستم ظریفی کہیں یا قدرت کا انتقام کہ جو ملک اللہ کے نام پر بنا اسے نقصان پہنچانے والے تمام کردار نشانِ عبرت بنا دیے گئے۔ شیخ مجیب الرحمٰن اپنی ہی فوج کی گولیوں کا نشانہ بنا، یحیٰی خان ذلیل ہو کر اقتدار سے رخصت ہوا اور فالج کا شکار ہو کر فوت ہوا، اندرا گاندھی اپنے محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بنی۔لیکن پاکستان کے دشمن اپنی سازشوں سے باز نہ آئے اور عمران نیازی کی شکل میں ایک نیا مہرہ تلاش کر لیا۔ اسے ناصرف اپنا داماد بنایا بلکہ اس پر بھاری سرمایہ کاری بھی کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کام اندرونی سہولت کاری کے بغیر ممکن نہیں تھا اور بدقسمتی سے پاکستان میں میر جعفر اور میر صادق بیرونی دشمنوں کو ہمیشہ سے میسر آتے رہے ہیں۔

2011 میں مینار پاکستان پر جلسہ کروا کر ایک کرکٹر کو سیاسی میدان کا ہیرو بنانے کی کوشش کی گئی۔ اسے ہر وہ سہولت فراہم کی گئی جو ممکن تھی۔ اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ کو اس کی امیج بلڈنگ پر لگا دیا گیا۔ اچھے خاصے ترقی کرتے ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر کنگال کر دیا گیا اور جب ملک کی سلامتی داؤ پر لگ گئی تو پراجیکٹ عمران لانے والوں کو ہوش آیا۔ اب اگر کہتے ہیں کہ ہم سیاست سے تائب ہو گئے ہیں تو ان کی تعریف کرنی چاہیے لیکن اس تباہی کے تمام کرداروں کا اسی طرح خاتمہ ضروری ہے جیسے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے والوں کا ہوا۔ مبصرین کھ مطابق اب اگر عمران خان ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے تو اسے یحیٰی، مجیب اور اندرا کا انجام یاد رکھنا چاہیے۔ کیونکہ اس مملکتِ خداداد سے جس جس نے غداری کی، قدرت نے اس سے انتقام لیا ہے۔

Back to top button