پاکستان کا میزائل پروگرام اور امریکی پابندیاں

تحریر : مرزا اشتیاق بیگ

بشکریہ: روزنامہ جنگ

گزشتہ دنوں امریکہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو مبینہ طور پر ساز و سامان کی ترسیل کرنے والے چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سمیت کئی چینی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کردیں۔ اِن کمپنیوں پر الزام ہے کہ انہوں نے میزائل ٹیکنالوجی کی پابندیوں کے باوجود پاکستان کے شاہین میزائل 3 اور ابابیل سسٹمز کے راکٹ موٹرز کیلئے ساز و سامان فراہم کیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کا پابندیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے متعلق ہمارے خدشات واضح ہیں اور اس بیلسٹک میزائل پروگرام کی حمایت سے انکار امریکی پالیسی کا حصہ ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ نے جن چینی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں، اُن میں بیجنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف آٹومیشن فار مشین بلڈنگ انڈسٹری، ہوبے ہواچنگدا انٹیلی جنٹ ایکوپمنٹ کمپنی، یونیورسل انٹرپرائز اور ژیان لونگدے ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ کمپنی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں جدید آلات بنانے والی کمپنی انوویٹو ایکوپمنٹ اور ایک چینی شہری بھی شامل ہے جس نے امریکہ کے میزائل پابندیوں کے قوانین آرمز ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ (AECA) اور ایکسپورٹ کنٹرول ریفارمز ایکٹ (ECRA) کی خلاف ورزی کی جس کے تحت امریکہ دنیا میں خطرناک ہتھیاروں کی روک تھام، پھیلائو اور آلات کی خریداری و فراہمی کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ چینی کمپنیوں پر پابندیوں کے ردعمل میں چین نے امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں اور دائرہ اختیار سے تجاوز کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو ایسی پابندیاں عائد کرنے کا اختیار حاصل نہیں جس کیلئے بین الاقوامی قوانین موجود ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے بھی امریکی پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے انہیں متعصبانہ اور سیاسی محرک قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی کمپنیوں پر محض شک کی بنیاد پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ یاد رہے کہ امریکہ اس سے قبل گزشتہ سال اکتوبر 2023 ءمیں بھی چین کی 3کمپنیوں کو پاکستان کو میزائل بنانے کیلئے درکار اشیاء کی فراہمی پر پابندی عائد کرچکا ہے جبکہ رواں برس کے آغاز میں امریکہ نے چین کی 3اور بیلاروس کی ایک کمپنی پر، پاکستان کے میزائل پروگرام سے مبینہ طور پر منسلک کمپنیوں، پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ 2021ءمیں بھی امریکہ، پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام میں مدد فراہم کرنے کے الزام میں 13پاکستانی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرچکا ہے۔ چینی کمپنیوں پر حالیہ امریکی پابندیوں کے دور رس اور سنگین نتائج برآمد ہوں گے اور ان پابندیوں سے امریکہ اور یورپ کی کوئی بھی کمپنی چینی کمپنیوں سے تجارت نہیں کرے گی جس سے یہ کمپنیاں اور ان کا بزنس شدید متاثر ہو گا۔ امریکہ، چین کی ابھرتی معیشت اور خطے میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ سے خوفزدہ ہے، وہ آئے روز چین سے تجارت پر پابندیاں عائد کررہا ہے اور امریکہ کے آئندہ انتخابات میں صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ اگر وہ صدر منتخب ہوئے تو چینی کمپنیوں پر تجارتی پابندیاں عائد کریں گے۔

پاکستان کے درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل شاہین 3اور ابابیل میزائل کا شمار بہترین صلاحیتوں والے میزائلوں میں ہوتا ہے۔ شاہین 3میزائل کی رینج 2740کلومیٹر ہے جبکہ ابابیل جنوبی ایشیا میں پہلا ایسا میزائل ہے جو 2200کلومیٹر کے فاصلے تک متعدد وار ہیڈز یا جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور مختلف اہداف کو نشانہ بناسکتا ہے لیکن بھارتی حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ پاکستان کا ابابیل میزائل صرف بھارت کو ہدف بنانے کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ پاکستان کے شاہین اور ابابیل میزائلوں کے برعکس بھارت کے اگنی 5انٹر کانٹی نینٹل میزائل کی رینج 5000کلومیٹر ہے جو پاکستان کے علاوہ چین کے دور دراز شہروں کو ہدف کا نشانہ بناسکتا ہے۔ بھارت اپنے میزائل پروگرام کیلئے دنیا بھر سے کھلے عام ساز و سامان خرید رہا ہے مگر بھارتی میزائل پروگرام کو ساز و سامان سپلائی کرنے والی کمپنیاں امریکی پابندیوں سے مستثنیٰ ہیں۔یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ کچھ ممالک نے عدم پھیلائو کے اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود اپنی پسندیدہ ریاستوں کیلئے جدید ملٹری ٹیکنالوجی کیلئے لائسنس کی شرائط کو آسانی سے نظر انداز کر رکھا ہے۔ اس طرح کے دہرے معیارات اور امتیازی طرز عمل عالمی عدم پھیلائو کی ساکھ کو متاثر کرتے ہیں۔ پاکستان کا بیلسٹک میزائل سسٹم ہمارے ایٹمی پروگرام کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور ایٹمی پروگرام، بیلسٹک میزائل سسٹم کے بغیر نامکمل ہے جو امریکہ اور اتحادی ممالک کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ ان ممالک کو یہ خطرہ ہے کہ پاکستان آنے والے وقت میں اپنا اسپیس وہیکل لانچ کر سکتا ہے جس سے پاکستان کو انٹر کانٹی نینٹل بیلسٹک میزائل فائر کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جائے گی۔ چینی کمپنیوں پر حالیہ پابندی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو امریکہ کے پاکستان کے ساتھ امتیازی سلوک اور دہرے معیار کا مظہر ہے۔

9 مئی کا ’پرنٹ ایڈیشن‘!

Check Also
Close
Back to top button